والدین کی دل جوئی و فرحت کیلئے کیا کریں؟
والدین کے ساتھ تعلقات کو خوشگوار رکھنے کیلئے چند تجاویز پر عمل اور بعض احتیاطیں انتہائی ضروری ہیں۔ اگر کوئی صدمہ والی خبر آ جائے تو والدین کو اچانک نہ سنائیں بلکہ موقع محل کا لحاظ رکھ کر مناسب وقت پر محتاط الفاظ میں سنائیں۔ کوشش کریں کہ کوئی بُری خبر ہو تو اس سے آگاہ کرنے کے لیے خود ان کی خدمت میں حاضر ہوں۔ ا
ن کو نہایت ادب سے سلام کریں، پھر ان کے پاس بیٹھ جائیں۔ گفتگو کا آغاز کریں تو صبر کی اہمیت اور اسلام میں صبر کرنے والوں کے زبردست اجر وثواب کے حوالے سے گفتگو کریں۔ جب آپ محسوس کریں کہ وہ ذہنی طور پر بُری خبر سننے کے لیے تیار ہو گئے ہیں تو پھر ان کو اس خبر یا واقعہ سے آگاہ کریں۔
انسان کی فطرت ہے کہ وہ کبھی بوڑھا ہونا یا کہلانا پسند نہیں کرتا۔ مرد ہو یا عورت وہ اپنے بارے میں اچھے کلمات، اچھے القاب سننا ہی پسند کرتا ہے۔ والدین کے لیے آپ ہمیشہ اس قسم کے کلمات ادا کریں، ماشاء اللہ ابھی تو آپ جوان ہیں۔ آپ سے کس نے کہہ دیا کہ آپ بوڑھے ہو گئے ہیں، آپ شکل و صورت کی زیبائی سے اپنی کمر سے کہیں کم عمر نظر آتے ہیں۔ آج تو آپ بالکل تندرست ہیں، آپ کی آواز سن کر بالکل ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آپ کی صحت بالکل ٹھیک ہے۔ اس قسم کے حوصلہ افزا جملے بڑے بوڑھوں اور بیماروں کو بھی تندرست و توانا کر دیتے ہیں۔
یہ بات ہمیشہ پیشِ نظر رہنی چاہیے کہ بچوں کی طرح والدین بھی اپنی تعریف سننا پسند کرتے ہیں۔ اگر انہوں نے کوئی اچھا لباس پہن رکھا ہے تو آپ ان سے کہیں کہ یہ کپڑا آپ پر بہت جچتا ہے، پھر دیکھیں کہ ان کو کتنی خوشی ہوتی ہے۔ والدین کی پسند کا کوئی شعر، کوئی مصرع ان کے سامنے بولیں۔ اگر آپ کی آواز اچھی ہے اور آپ خوش آوازی سے اشعار پڑھ لیتے ہیں تو ان کے سامنے اچھے اشعار پڑھیں۔
والدین کو اپنی اولاد کی آواز بہت اچھی لگتی ہے۔ اُن کے سامنے کوئی نہ کوئی ایسی بات کہہ دیں جس سے وہ مسکرا اُٹھیں۔ والدین کو قطعاً یہ احساس نہ ہونے دیں کہ وہ بوڑھے ہو گئے ہیں بلکہ اُن کو یہی احساس دلائیں کہ وہ بالکل تندرست و توانا ہیں۔
والدین کے سامنے دوسرے لوگوں کے بچوں کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے زیادہ گفتگو نہ کریں کہ فلاں کا بیٹا اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے‘ یا اُس کی تربیت بڑی عمدہ ہوئی ہے ۔ ہماری تعلیم یا تربیت اس طرح نہیں ہو سکی۔ اس گفتگو سے اُن کے دل میں یہ بات آ سکتی ہے کہ وہ اپنے بیٹے کو اعلیٰ تعلیم نہیں دلوا سکے یا ہمارے بچے ہماری تربیت سے مطمئن نہیں ہیں۔ والدین کے پاس بیٹھیں تو ان سے مسکراتے چہرے کے ساتھ گفتگو کریں۔ کبھی کبھار مذاق کی نوبت بھی آ جائے تو کوئی مضائقہ نہیں۔انہیں کبھی خوبصورت واقعات ،کبھی کوئی سچا لطیفہ یا کوئی اچھا شعر سنا دیں۔
اس طرح گھر کے ماحول کو عمدہ بنانے میں بڑی مدد ملتی ہے۔ملکی یا عالمی حالات کے حوالے سے ان سے بات چیت کریں،کوئی اہم خبر ہو تو ان کو ضرور بتائیں۔ اس پر خود بھی تبصرہ کریں اور ان کے تاثرات بھی معلوم کریں۔ بعض لوگوں کے والدین بہت پڑے لکھے ہوتے ہیں، ان کے علمی اور عملی تجربات سے فائدہ اُٹھانے کا یہ بہترین موقع ہوتا ہے۔ اُن سے خوب استفادہ کریں۔ ان سے درخواست کریں کہ وہ اپنے تجربات کے حوالے سے، اپنے وسیع تر مطالعہ کی روشنی میں بتائیں کہ ہمیں موجودہ حالات میں کیا کرنا چاہیے۔
آپ محسوس کریں گے کہ والدین کو اس بات سے بے حد خوشی ہوئی ہے اور وہ آپ کے مزید قریب ہو جائیں گے۔ یہ بات ہمیشہ یاد رکھنی چاہیے کہ ہر والد کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کی اولاد اس سے آگے بڑھے۔ وہ کوئی چیز آپ سے نہیں چھپائیں گے۔
اپنی گفتگو میں بار بار اس بات کا تذکرہ کریں کہ ہم جو کچھ بھی ہیں اپنے والدین کی اعلیٰ تربیت کا نتیجہ ہیں۔ اس سے والدین کے دل کو سُرور ملے گا۔ وہ یہ محسوس کریں گے کہ ہم نے اپنی اولاد کی جو تربیت کی ہے اس کے خوشگوار نتائج ہمارے سامنے ہیں۔
اولاد اچھی تربیت کے نتیجے میں اعمالِ صالحہ کی بہار والدین کی زندگی ہی میں پیش کرتی ہے۔ اس سے والدین کو بے حد خوشی ہوتی ہے۔ ہمیں یہ بات تسلیم کرنی ہو گی کہ ہم جو کچھ بھی ہیں والدین کی بہتر تعلیم و تربیت کا نتیجہ ہیں۔ تمام والدین اپنے وسائل کے مطابق اپنی اولاد کی تعلیم و تربیت میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتے۔ امیر ہوں یا غریب، اپنے وسائل اور حالات کے مطابق تمام والدین اپنی اولاد کے لیے اپنی حیثیت سے بڑھ کر خرچ کرتے ہیں۔
ان کی ایک ہی خواہش ہوتی ہے کہ ہماری اولاد آگے نکل جائے، ہمارے بچے اچھی تعلیم حاصل کریں، ان کا مستقبل سنور جائے اور وہ عظیم انسان بن جائیں۔ اب جب کہ آپ جوان ہیں اور وہ بوڑھے ہو چکے ہیں، ایسے وقت میں ان کی تربیت، ان کی محنت اور ان کی قربانیوں کا اعتراف کرنا والدین کے لیے بے شمار خوشیوں کا باعث ہوتا ہے، اس لیے والدین کے سامنے ان کی تمام قربانیوں کا اعتراف کریں۔