ماں کو مارنے والے بدبخت بیٹے پر فالج گر گیا
وہ بڑا ہی بدبخت تھا۔ والدین کا اکلوتا بیٹا ہونے کے باعث بے حد لاڈلا بھی تھا۔ شروع دن سے وہ بڑا خود سر تھا۔ اس نے کبھی اپنے والدین کو اہمیت نہیں دی۔ ان کے خلاف بدزبانی کرتا، ان کے بارے میں اس کی زبان قینچی کی طرح چلتی۔
بسا اوقات والدین کو گالی بھی دے دیتا تھا۔ اُسے اِس بات کا کوئی خیال نہیں تھا کہ شریعت اسلامیہ نے والدین کی خدمت پر کتنا بڑا اجر اور ثواب رکھا ہے۔ وہ کبھی سوچتا بھی نہیں تھا کہ والدین کی اطاعت و فرمانبرداری اور ان کی عزت و احترام سے دنیا و آخرت میں کس قدر بلند درجات ملتے ہیں۔ والدین کی اطاعت و فرمانبرداری کے حوالے سے دین اسلام نے جو عظیم تعلیم دی ہے کہ ماں باپ کو تکلیف دینا تو درکنار انہیں ’’اُف‘‘ کہنا بھی جرم ہے۔ اس حکم کے وہ بالکل برعکس تھا۔
وقت کے ساتھ ساتھ وہ پروان چڑھتا گیا مگر اس کے دل و دماغ میں والدین کی محبت کا جذبہ بیدار نہ ہو سکا۔ وہ کہاوت ’’کریلا اور نیم چڑھا‘‘ مصداق بنتا گیا کہ ایک تو والدین کی خدمت نہ کرتا ،دوسرے والدین پر زبان درازی کرنے میں جھجک محسوس نہیں کرتا تھا۔ وہ انہیں اپنے جارحانہ الفاظ سے تکلیف دیتا۔ باپ نے اپنی زندگی میں بیٹے کی زبان سے اپنے بارے میں کبھی کلمۂ خیر نہیں سنا، یہاں تک کہ اس کی موت آگئی اور وہ اپنے رب سے جا ملا۔
اب گھر میں اکلوتے بیٹے کے ساتھ صرف ماں رہتی تھی۔ باپ کی وفات کے بعد بھی بیٹے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ وہ اپنی ماں سے حسنِ سلوک کی بجائے انتہائی بدتمیزی سے پیش آتا۔ بلکہ باپ کا سایہ اُٹھنے کے بعد ماں کے ساتھ اُس کا رویہ بد سے بدتر ہوتا گیا۔ مگر ماں بہرحال ماں ہوتی ہے، اس کے اندر اولاد کے لیے بے تحاشا محبت ہوتی ہے۔ اولاد لاکھ سرکشی کرے مگر وہ صبر و ضبط سے کام لیتی ہے اور ہمیشہ اولاد کے حق میں بھلائی چاہتی ہے۔
شوہر کے انتقال کے بعداُسے اپنے نوجوان بیٹے سے بہت تکالیف پہنچیں مگر اس کے باوجود وہ اپنے بیٹے سے شدید محبت کرتی تھی۔ ہمیشہ اسے نصیحت کرتی، بُرے دوستوں کیساتھ میل جول رکھنے، گھومنے پھرنے اور اُن کی صحبت اختیار کرنے سے منع کرتی۔ ماں کو اچھی طرح معلوم تھا کہ بُرے ساتھیوں کی صحبت کے سبب اس کا بیٹا سرکش اور نافرمان ہو چکا ہے ۔ اس کی دین اسلام سے بیزاری، اخلاقِ حمیدہ سے دُوری اور پڑھائی لکھائی سے نفرت دراصل بُری صحبت ہی کا نتیجہ تھی۔
ماں کے لاکھ سمجھانے بجھانے اور نصیحت کرنے کے باوجود اس کے اندر کوئی تبدیلی پیدا نہیں ہوئی۔ اس کے برعکس وہ اپنی ماں کی نصیحت کو اپنے حق میں بُرا سمجھتا، بلکہ ماں کو گالیاں بکتا تھا۔ ماں نے جب دیکھا کہ اب پانی سر سے اونچا ہو چکا ہے تو اس کے صبر کا جام چھلک گیا۔ اس نے بیٹے کو دھمکی آمیز الفاظ میں کہا:
’’تیری بدتمیزی اور زبان درازی کی حد ہو گئی ہے، اب بھی وقت ہے کہ سدھر جا اور سیدھے راستے پر چل۔ اگر تو نے اپنے آپ کو نہ بدلا تو میں اپنے بھائی سے کہہ کر تجھے ادب سکھلاؤں گی۔‘‘
اس دھمکی کا بیٹے پر کیا اثر ہوتا، الٹا وہ ماموں پر برس پڑا اور اُول فول بکنے لگا۔ اس نے ماموں کو دھمکی دی کہ اگر اُس نے میرے خلاف کوئی حرکت کی تو میں اس کے ساتھ بہت بُری طرح پیش آؤں گا۔
اب اُس کی عمر کوئی 24سال ہو چکی تھی۔ وہ ایک ہٹا کٹا جوان لگتاتھا۔ اپنے دفاع کی طاقت رکھتا تھا۔ کوئی اس کے ذاتی معاملات میں مداخلت کرتا تو اُس پر برس پڑتا تھا۔ ایک دفعہ اُس کی ماں اسے نصیحت آمیز کلمات کہہ رہی تھی۔ اُسے گھناؤنی حرکتوں سے باز رہنے کی تلقین کر رہی تھی۔ اس پر بیٹے کا پارہ چڑھ گیا۔ اُس نے پاؤں سے جوتا نکالا اور اپنی ماں کو دے مارا۔ ماں نے جوتے سے بچنے کی کوشش کی مگر جوتا اس کی کمر پر جا لگا۔
ماں بیٹھ گئی اور زار و قطار رونے لگی۔ وہ اپنی قسمت کو رو رہی تھی کہ ایسے بدبخت بیٹے نے اس کی کوکھ سے جنم کیوں لیا۔ شدتِ رنج وغم سے اس کا کلیجہ جھلس رہا تھا۔وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ ایک دن اُس کی کوکھ سے جنم لینے والا بچہ جوان ہو کر اسے جوتا مارے گا۔ اس کی زبان سے اپنے نافرمان بیٹے کے لیے بددعا نکل گئی۔
بددعا اور وہ بھی ماں کی… یہ نافرمان بیٹا ماں کو جوتا مارنے کے بعد گھر سے نکل گیا ۔ اسے اپنے کرتوت پر کوئی افسوس نہیں تھا۔ وہ حسب معمول بُرے ساتھیوں کی مجلس میں پہنچ گیا۔ گپ شپ میں رات ہو گئی۔ اب وہ تھکا ہارا گھر واپس آیا۔ اس نے اب یہ جاننے کی کوشش نہیں کی کہ اُس کے ظالمانہ رویے سے ماں کو کتنے تکلیف پہنچی ہے؟ وہ بستر پر لیٹ گیا اور خراٹے لینے لگا۔ ادھر ماں کا یہ حال تھا کہ اسے مارے رنج و غم کے نیند نہیں آ رہی تھی۔
صبح ہوئی۔ نافرمان بیٹا پوری نیند کے بعد بیدار ہوا۔ اور یہ دیکھ کر اُس کی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ اُس کا وہ ہاتھ مفلوج ہو چکا ہے جس سے اُس نے ماں کو جوتا مارا تھا۔ اس کاداہنا ہاتھ بے حس وحرکت ہو گیا۔ اس نے فوراًدروازہ بند کر لیا اور چیخ چیخ کر رونے لگا۔ ادھر ماں بھی صبح سویرے بیدار ہو کر گھر کے ضروری کام نمٹا رہی تھی کہ اسے نافرمان بیٹے کے چیخنے چلانے کی آواز سنائی دی۔ وہ اس آواز کی طرف لپکی ۔ بیٹے کی حالت دیکھ کر اس کی آنکھیں بھر آئیں۔
آخر تھی تو ماں! ماں کی محبت کا اندازہ بھلا کون کر سکتا ہے۔ بیٹے کو ماں کی نافرمانی کا بدلہ مل چکا تھا۔ اب ماں کے ساتھ بیٹے کی شفایابی کے لیے دعا و زاری کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ اُس نے فوراً ہاتھ آسمان کی طرف اُٹھا دیے۔ وہ اللہ تعالیٰ کے دربار میں گڑگڑا کر دعا کر رہی تھی، پروردگار سے بیٹے کا ہاتھ ٹھیک ہو جانے کے رو رو کر فریاد کر رہی تھی مگر آسمان کا فیصلہ صادر ہو چکا تھا۔
قارئین کرام! اس نافرمان بیٹے کا کتنا بھیانک انجام ہوا، جس نے جوتا مارتے ہوئے اپنی عمررسیدہ ماں کی ذرا برابر پروا نہیں کی تھی۔ دیکھئے اللہ تعالی نے اس نافرمان بیٹے کا کیا حشر کیا کہ جس ہاتھ سے اس نے ماں کو جوتا مارا وہ ہمیشہ کے لیے مفلوج ہو گیا ، یہ عرش کا فیصلہ تھا۔ مگر غور کریں اُس ماں کی اپنے نافرمان بیٹے سے محبت اور ہمدردی پر :
’’ذرا اُس ماں کا بھی دل دیکھو جس نے اپنے ساتھ بیٹے کے ظالمانہ سلوک کو یکسر فراموش کر دیا اور بیٹے کی حالت زار دیکھ کر اس کی شفایابی کے لیے بارگاہِ الٰہی میں اُس کے ہاتھ بے ساختہ اُٹھ گئے۔ ‘‘