نیا سیاسی نعرہ ’’برائی کے خلاف جنگ‘‘
عمران خان قوم سے توقع رکھتے ہیں کہ اپوزیشن کے خلاف جنگ میں وہ اٹھ کھڑے ہوں اس جنگ کو انہوں نے امر بالمعروف نہی عن المنگر ’’برائی کے خلاف جنگ‘‘ کا نام دیا ہے۔ پورے ملک میں پھیلے تحریک انصاف کے حامی اسی سوچ کے تحت پریڈگراؤنڈ اسلام آباد جلسے میں شرکت کیلئے نکل پڑے ہیں۔ شہر اقتدار کے اہم چوک چوراہوں پر جو بینرز آویزاں کئے گئے ہیں ان پر بھی جلی حروف میں امربالمعروف نہی عن المنکر لکھا گیا ہے۔
تحریک انصاف کے منحرف اراکین کی جانب سے اقدام اٹھائے جانے کے بعد عمران خان نے اس جنگ کو برائی کے خلاف جنگ قرار دیا ہے، عمران خان سمجھتے ہیں کہ منحرف اراکین اپنا ضمیر بیچ کر برائی کے مرتکب ہوئے ہیں، اس کے بعد کارکنان کی سطح پر بھی اسے برائی کے خلاف جنگ قرار دیا جا رہا ہے، سوشل میڈیا پر محاذ زیادہ گرم ہے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اپنے سیاسی مقصد اور اقتدار کو بچانے کیلئے بڑی مہارت کے ساتھ کارکنان کو ایک نیا سیاسی نعرہ دے دیا گیا ہے، کیونکہ عمران خان جب وزیر اعظم نہیں رہیں گے تو اسی نعرے کے سہارے وہ اپنی سیاسی ساکھ کو قائم رکھنے کی کوشش کریں گے۔
ماضی میں سیاسی جماعتوں کی طرف سے کارکنان کو نعرے دیئے گئے، ان میں کئی مقبول بھی ہوئے، سیاسی نعروں کا عوام میں نفرت بڑھانے میں اہم کردار ہے، شاید سیاسی جماعتوں کا مطمح نظر بھی یہی تھا۔ ’’طاقت کا سرچشمہ عوام‘‘ ایک سیاسی نعرے تھا مگر بہت مقبول ہوا، جمہوریت پسند سیاسی حلقے آج بھی آمریت کے خلاف فخریہ طور پر یہ نعرہ لگاتے ہیں۔ پیپلزپارٹی کے جیالے یہ نعرہ لگاتے کہ ’’بھٹو ہم شرمندہ ہیں، تیرے قاتل زندہ ہیں۔‘‘
مسلم لیگی ورکرز یہ نعرہ لگاتے ’’جاگ پنجابی جگ تیری پگ نوں لگ گیا داغ۔‘‘ اسی طرح ’’ظالمو! قاضی آ رہا ہے‘‘ برسوں تک مقبول رہا۔ بے نظیر کی شہادت کے بعد آصف علی زردای نے ’’پاکستان کھپے‘‘ کا نعرہ لگا تو انہیں عوام میں بہت پذیرائی ملی۔ مسلم لیگ نے یہ نعرہ ایجاد کیا کہ ’’دیکھو دیکھو کون آیا، شیر آیا شیر آیا‘‘ تحریک انصاف کا نعرہ گو نواز گو تو نواز شریف کو نااہل قرار دینے تک چلتا رہا، اسی طرح احتساب عدالت نے نواز شریف کو تاحیات نااہل کیا تو انہوں نے جی ٹی روڈ پر نعرہ لگایا ’’ووٹ کو عزت دو‘‘۔
کئی نعرے نفرت و فساد کا باعث بھی بنے اور رشتے ٹوٹ گئے، اب تحریک انصاف نے ’’برائی کے خلاف جنگ‘‘ کا نیا نعرہ دیا ہے کتنے لوگ اس نئے سیاسی نعرے کی بھینٹ چڑھتے ہیں سربراہان کو اس کی پروا نہیں ہے، وہ تو بس مقصد کا حصول چاہتے ہیں۔
ذرا تصور کریں کہ جب حکومتی جماعت اور اپوزیشن کے کارکنان آمنے سامنے ہوں گے اور کارکنان نعرے بازی کریں گے تو تصادم کے امکانات بڑھ جائیں گے، یعنی برائی کے خلاف جنگ بذات خود بڑی برائی کی شکل اختیار کر جائے گی، اس تصادم کے نتائج کیا ہوں گے اس بارے حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا ہے۔
ایک بات طے ہے کہ اگلے روز میں اسلام آباد میں دنگافساد ہونے جا رہا ہے کیونکہ جمعیت علماء اسلام کے قافلے سندھ سے چل پڑے ہیں ، مسلم لیگ ن مہنگائی مکاؤکے خلاف آج لاہور سے لانگ مارچ کا آغاز کر دے گی جبکہ پاکستان پیپلزپارٹی بھی اس میں بھرپور انداز میں شرکت کرے گی۔
اس اعتبار سے دیکھا جائے تو محتاط انداز میں لاکھوں لوگوں کے جمع ہونے کی توقع ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر سیاسی جماعت اپنے طور پر ایڑی چوٹی کا زور لگائے گی تاکہ وہ حریف کے مقابلے میں مؤثر پاور شو ثابت کر سکے، کشیدگی کی صورت میں سکیورٹی اداروں کیلئے حالات پر قابو پانا مشکل ہو جائے گا۔
دور دور تک کوئی ایسا راستہ دکھائی نہیں دے رہا ہے جسے تصادم سے بچے کا راستہ قرار دیا جا سکے کیونکہ ہر جانب ہے آگ برابر لگی ہوئی
یہ صورتحال افسوسناک ہے کسی مسئلے کے حل کیلئے بڑی خرابی کی طرف جانا دانشمندی نہیں کہلائے گا اہل سیاست کو اس طرف توجہ دینی چاہئے۔