رمضان المبارک کی تیاری کیسے کریں؟

رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے رمضان کے چاند نظرآنے پر یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ اگر لوگوں کو یہ معلوم ہو جائے کہ رمضان المبارک کی حقیقت کیا ہے تو میری امت یہ تمنا کرے کہ سارا سال رمضان ہی ہو جائے

رمضان المبارک نیکیوں کا موسم بہار ہے، اللہ تعالیٰ کی رحمت اس ماہ میں بارش کی طرح برستی ہے، مغفرت کا پروانہ ملتا ہے، اور جہنم کی آگ سے آزادی ملتی ہے۔ خیر کے طلب گار آگے بڑھتے ہیں، شر کے چاہنے والوں کو پیچھے ہٹا دیا جاتا ہے۔ ہر عبادت کا ثواب بڑھا دیا جاتا ہے، نفل نماز کا ثواب ستر فرضوں کے برابر عطا کیا جاتا ہے۔ اس لئے رمضان سے پہلے رمضان کی تیاری کر لینی چاہئے تاکہ رمضان المبارک کے لمحات کو قیمتی بنانے کا کوئی لمحہ ضائع نہ ہو۔ اس ماہ کو قرآن کریم سے خاص مناسبت ہے۔

اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن کریم نازل کیا گیا جو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے جو راہ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والے ہے۔ (البقرہ: ۱۸۵)

بروایت واثلۃ بن الاسقع نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رمضان کی پہلی تاریخ کو صحف ابراہیم علیہ السلام، چھٹی کو توریت، تیرہویں کو انجیل اور چوبیسویں کو قرآن کریم نازل ہوا۔ (البحرالمحیط)

امام رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ نے اس مہینہ کو ایک خاص شرف سے نوازا ہے اور اپنی ربویت کا پوری طرح اظہار فرمایا ہے، اس طرح کہ اس میں قرآن کریم نازل فرمایا، اس لیے بندوں کو حکم دیا کہ وہ اس مہینہ کو روزہ کی اہم عبادت سے فروزاں رکھیں، ربویت کا شکر عبودیت ہی سے ہو سکتا تھا۔ اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ کے انوار صمدیہ ہر وقت اور ہر ساعت جلوہ افروز ہیں، جن میں نہ کوئی خفاء نہ کوئی حجاب لیکن ارواح انسانی میں انوار کی تجلی سے علائق بشری مانع تھیں، ان علائق بشری کے کمزور اور ضعیف کرنے کے لیے روزہ کی عبادت فرض کی تاکہ ارواح انسانی انوار صمدانی کو جذب کر سکیں۔ (تفیسر کبیر)

روزہ کی اہمیت اور فضیلت کے بارے میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ارشاد فرمایا کہ : ہر نیکی کا بدلہ دس سے لے کر سات سو گنا تک دیا جاتا ہے ، سوائے روزہ کے کہ وہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا۔

حدیث کا پہلا جملہ تو واضح ہے، دوسرے جملہ پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ ساری ہی عبادتیں اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں، وہ کون سی خصوصیت تھی کہ روزہ کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی، اس سلسلہ میں علامہ مرتضیٰ زبیدیؒ نے چند اقوال نقل کیے ہیں جن کی تلخیص درج ذیل ہے:
(۱)۔ کھانے پینے سے بے نیازی حق تعالیٰ کی شان ہے، بندہ جب روزہ رکھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس صفت سے کچھ مشابہت حاصل کرتا ہے، اس لیے فرمایا گیا کہ روزہ میرا ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا۔

(۲) ۔ نماز، سجدہ، رکوع، ذکر اور صدقہ سے غیر اللہ کی بندگی، بت پرستوں یا گمراہ فرقوں نے بھی کی ہے، لیکن روزہ سے غیر اللہ کی بندگی نہیں کی گئی، کبھی نہ سنا گیا، نہ دیکھا گیا کہ کسی بت پرست یا گمراہ نے اپنے بت یا بزرگ کے نام پر روزہ رکھا ہو، اس لیے فرمایا گیا کہ روزہ میرا ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا۔

(۳)۔ اگر کوئی کسی کا حق غصب کرے یا تکلیف و ایذاء دے اور دنیا میں اس کا حق ادا کرے یا معاف کرائے بغیر مر جائے تو اللہ تعالیٰ ظالم سے اس کی نماز اور عبادات اس کے ظلم کے بدلہ میں دلوائیں گے، البتہ روزہ ایک ایسی عبادت ہے جو کسی کے حق کے بدلہ میں نہیں دیا جائے گا، اس لیے حدیث میں اللہ تعالیٰ نے اس کی نسبت اپنی طرف فرمائی ہے۔

(۴)۔ عام عبادات اور طاعات کا قانون یہ ہے کہ ہر نیکی کا ثواب دس گنا سے سات سو گنا تک دیا جاتا ہے لیکن روزہ ایک ایسی عبادت ہے کہ اس میں یہ قانون نہیں ہے، اللہ تعالیٰ اپنی جود و سخا کا اظہار فرماتا ہے اور روزہ دار کو بے حد اجر و ثواب دیتا ہے، وجہ ظاہر ہے کہ روزہ صبر ہے اور صبر کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: صبر کرنے والوں کو بے حد اجر دیا جائے گا۔

(۵)۔ ترکِ طعام و شراب ملائکہ کی صفت ہے، اس لیے جب بندہ روزہ رکھتا ہے تو ان کی صفت سے متصف ہو جاتا ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ اس کا بدلہ فرشتوں سے نہیں دلوائے گا، بلکہ خود دے گا۔

(۶)۔ یہ نسبت شرف و تکریم کی بناء پر ہے۔ جیسے کہا جاتا ہے کہ بیت اللہ، کعبۃ اللہ، ناقۃ اللہ وغیرہ۔

(۷)۔ نماز، زکوٰۃ اور حج وغیرہ ظاہری اشکال رکھتے ہیں لیکن روزہ ایک ایسی عبادت ہے جس کی کوئی ظاہری شکل نہیں ہے ، اس لیے اس میں ریاکاری کا شائبہ نہیں ہوتا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس کی نسبت اپنی طرف فرمائی، چنانچہ بیہقی اور ابونعیم کی روایت میں اس کی تصریح بھی ہے، روزہ میں دکھلاوا نہیں، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، روزہ میرا ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا، بندہ میری وجہ سے ہی اپنا کھانا پینا چھوڑتا ہے۔

(۸)۔ صوم (روزہ) کسی چیز سے رک جانے یا کسی چیز کے بلند ہو جانے کو کہتے ہیں، جب دن چڑھ جائے تو اس وقت اہل عرب کہا کرتے تھے صام النہار، روزہ بھی دوسری عبادات و طاعات سے ممتاز ہے اور بلندی و رفعت میں بے مثل ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس کی نسبت اپنی طرف فرمائی ہے۔ (شرح احیاء)

حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب رمضان شریف کی پہلی رات ہوئی تو سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم (لوگوں سے خطاب کرنے کیلئے ) کھڑے ہوئے اور اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء بیان کر کے ارشاد فرمایا: ’’اے لوگو! تمہاری طرف سے تمہارے دشمن جنات کے لیے خداوند تعالیٰ کافی ہیں اور اللہ تعالیٰ نے تم سے دعاء قبول کرنے کا وعدہ فرمایا ہے چنانچہ کلا م پاک میں ارشاد ہے: مجھ سے مانگو میں تمہاری دعا قبول کروں گا۔ خوب سن لو! خداوند قدوس نے ہر سرکش شیطان پر سات فرشتے (نگرانی کیلئے) مقرر فرما دیے ہیں، لہٰذا اب وہ ماہ رمضان کی پہلی رات سے اخیر رات تک (کے لیے) آسمان کے دروازے کھلے ہوئے ہیں اور اس مہینے میں دعاء قبول ہوتی ہے۔ ‘‘

جب رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی پہلی شب ہوتی تو رسالب مآب صلی اللہ علیہ وسلم (ہمہ تن عبادت میں مصروف ہونے کیلئے) تہبند کس لیتے اور ازواج مطہرات سے علیحدہ ہو جاتے، اعتکاف فرماتے اور شب بیداری کا اہتمام فرماتے۔ کسی نے پوچھا : تہبند کس لیتے کا کیا مطلب ہے؟ تو راوی نے جواب دیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان دنوں بیویوں سے الگ رہتے تھے۔ (کنزل العمال)

حضرت ابو مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ میں نے رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے رمضان کے چاند نظرآنے پر یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ اگر لوگوں کو یہ معلوم ہو جائے کہ رمضان المبارک کی حقیقت کیا ہے تو میری امت یہ تمنا کرے کہ سارا سال رمضان ہی ہو جائے۔ پھر (قبیلہ) خزاعہ کے ایک شخص نے عرض کیا اے اللہ کے نبی! (رمضان کے بارے میں) ہمیں کچھ بتلائیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : رمضان المبارک کے لیے جنت شروع سال سے اخیر سال تک سجائی جاتی ہے، جب رمضان المبارک کا پہلا دن ہوتا ہے تو عرش الٰہی کے نیچے سے ایک ہوا چلتی ہے جس سے جنت کے درختوں کے پتے ہلنے اور بجنے لگتے ہیں اور حور حین عرض کرتی ہیں: اے ہمارے رب! اس مبارک مہینے میں ہمارے لیے اپنے بندوں میں سے کچھ شوہر مقرر کر دیجئے جن سے ہم اپنی آنکھیں ٹھنڈی کریں اور وہ ہم سے اپنی آنکھیں ٹھنڈی کریں۔


(اس کے بعد پھر) آپ نے فرمایا: کوئی بندہ ایسا نہیں ہے کہ رمضان شریف کا روزہ رکھے مگر بات یہ ہے کہ اس کی شادی ایسی حور سے کر دی جاتی ہے جو ایک ہی موتی سے بنے ہوئے خیمے میں ہوتی ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام پاک میں فرمایا ہے:
یعنی حوریں خیموں میں رُکی رہنے والی۔ اور ان عورتوں میں سے ہر عورت کے جسم پر ستر قسم کے لباس ہوں گے جن میں سے ہر لباس کا رنگ دوسرے سے مختلف ہو گا، اور انہیں ستر قسم کی خوشبو دی جائے جن میں سے ہر خوشبو کا انداز دوسرے سے مختلف ہو گا۔

اور ان میں سے ہر عورت کی (خدمت اور) ضرورت کے لیے ستر ہزار نوکرانیاں اور ستر ہزار خادم ہوں گے، ہر خادم کے ساتھ سونے کا ایک بڑا پیالہ ہو گا جس میں کئی قسم کا کھانا ہو گا اور وہ کھانا اتنا لذیذ ہو گا کہ اس کے آخری لقمے کی لذت پہلے لقمے کی لذت سے کہیں زیادہ ہو گی، اور ان میں سے ہر عورت کے لیے سرخ یاقوت کے تخت ہوں گے، ہر تخت پر ستر بسترے ہوں گے جن کے استر موٹے ریشم کے ہوں گے اور ہر بستر پر ستر گدے ہوں گے۔ اور اس کے خاوند کو بھی اسی طرح سب کچھ دیا جائے گا اور وہ موتیوں سے جڑے ہوئے سرخ یاقوت کے ایک تخت پر بیٹھا ہو گا، اس کے ہاتھوں میں دو کنگن ہوں گے۔ یہ رمضان المبارک کے ہر روزہ کا بدلہ ہے خواہ جو شخص بھی روزہ رکھے۔ اور روزہ دار نے روزہ کے علاوہ جو نیکیاں اعمال صالحہ کی ہیں ان کا اجر و ثواب اس کے علاوہ ہے، مذکورہ ثواب صرف روزہ رکھنے کا ہے۔ (الترغیب والترہیب)

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button