خاتون نے ایسا کیا کہا کہ خدا کی پکڑ میں آ گئی؟

مدینہ منورہ کے گرد و نواح میں ایک ڈیرے پر ایک عورت فوت ہو گئی…دوسری اسے غسل دینے لگی… جو غسل دے رہی تھی … جب اس کا ہاتھ مری ہوئی عورت کی ران پر پہنچا تو اس کی زبان سے نکل گیا… میری بہنو! (جو دو چار بیٹھی ہوئی تھیں) یہ جو آج عورت مر گئی ہے اس کے تو فلاں آدمی کے ساتھ خراب تعلقات تھے…

غسل دینے والی عور ت نے جب یہ کہا تو قدرت کی طرف سے گرفت آ گئی …اس کا ہاتھ ران پر چمٹ گیا…جتنا کھینچتی ہے وہ جدا نہیں ہوتا… زور لگاتی ہے مگر ران ساتھ ہی آتی ہے… دیر لگ گئی … میت کے ورثاء کہنے لگے … بی بی جلدی غسل دو…

شام ہونے والی ہے ہم نے جنازہ پڑھ کر اسے دفنانا بھی ہے… وہ کہنے لگی کہ میں تو تمہارے مردے کو چھوڑتی ہوں مگر وہ مجھے نہیں چھوڑتا… رات پڑ گئی مگر ہاتھ یونہی چمٹا رہا… دن آ گیا پھر بھی ہاتھ چمٹا ہوا… اب مشکل بنی تو اس کے ورثاء علماء کے پاس گئے… ایک مولوی صاحب سے پوچھتے ہیں…

مولوی صاحب ! ایک عورت دوسری مردہ عورت کو غسل دے رہی تھی اس کا ہاتھ میت کی ران کے ساتھ چمٹا رہا… اب کیا کیا جائے… وہ فتویٰ دیتا ہے کہ چھری کے ساتھ اس کا ہاتھ کاٹ دو۔ غسل دینے والی عورت کے ورثاء کہنے لگے کہ ہم تو اپنی عورت کو معذور نہیں کرانا چاہتے… ہم اس کا ہاتھ نہیں کٹنے دیں گے… انہوں نے کہا کہ فلاں مولوی صاحب کے پاس چلیں… اس سے پوچھا تو وہ کہنے لگا کہ چھری لے کر مری ہوئی عورت کا گوشت کاٹ دیا جائے… مگر اس کے ورثاء نے کہا ہم اپنا مردہ خراب نہیں کرنا چاہتے۔

تین دن اور تین راتیں مسلسل اسی حالت میں گزر گئے… گرمی بھی تھی ، دھوپ بھی تھی… بدبو پڑنے لگی… گردونواح کے کئی دیہات تک بات پہنچ گئی …انہوں نے سوچا کہ یہاں یہ مسئلہ کوئی حل نہیں کر سکتا… چلو مدینہ منورہ میں جاتے ہیں… وہاں حضرت امام مالکؒ اس وقت قاضی القضاۃ کی حیثیت میں تھے…وہ حضرت امام مالکؒ کی خدمت میں حاضر ہو کر کہنے لگے …حضرت !ایک عورت مری پڑی تھی اور دوسری اسے غسل دے رہی تھی… اس کا ہاتھ اس کی ران کے ساتھ چمٹ گیا…چھوٹتا ہی نہیں ہے تین دن ہو گئے ہیں… کیا فتویٰ ہے؟
امام مالکؒ نے فرمایا مجھے وہاں لے چلو…

وہاں پہنچے اور چادرکی آڑ میں پردے کے اندر کھڑے ہو کر غسل دینے والی عورت سے پوچھا… بی بی جب تیرا ہاتھ چمٹا تھا تو، تو نے زبان سے کوئی بات تو نہیں کہی تھی…وہ کہنے لگی کہ میں نے اتنا کہا تھا کہ یہ جو عورت مری ہوئی ہے اس کے فلاں کے ساتھ ناجائز تعلقات تھے… امام مالکؒ نے پوچھا… بی بی! جو تونے تہمت لگائی ہے کیا اس کے چار چشم دیدہ گواہ تیرے پاس ہیں… کہنے لگی نہیں… پھر فرمایا … کیا اس عورت نے خود تیرے سامنے اس بارے میں اقبالِ جرم کیا تھا؟

کہنے لگی… نہیں…فرمایا … پھر تو نے تہمت کیوں لگائی؟
وہ کہنے لگی کہ میں نے اس لیے کہہ دیا تھا کہ وہ گھڑا اُٹھا کر اس کے دروازے پر گزر رہی تھی… یہ سن کر امام مالکؒ فرمانے لگے … قرآن پاک میں آتا ہے … جس کا ترجمہ یہ ہے:
… جو عورتوں پر ناجائز تہمتیں لگا دیتے ہیں ان کے پاس چار گواہ نہیں ہوتے ان کی سزا ہے کہ ان کو زور سے اسی کوڑے مارے جائیں۔

تو نے ایک مردہ عورت پر تہمت لگائی ہے … تیرے پاس کوئی گواہ نہیں تھا، میں وقت کا قاضی القضاۃ حکم کرتا ہوں … جلادو! اسے مارنا شروع کر دو… جلادوں نے اسے مارنا شروع کر دیا…وہ کوڑے مارتے جا رہے تھے … ستر کوڑے مارے مگر ہاتھ یونہی چمٹا رہا … پچھہتر کوڑے مارے مگر ہاتھ یونہی چمٹا رہا… اناسی کوڑے لگے تو ہاتھ پھر بھی نہ چھوٹا… جب اسی واں کوڑا لگا تو اس کا ہاتھ خود بخود چھوٹ کر جدا ہو گیا۔ (زرقانی شرح موطا امام مالک)

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button