ترقی کیلئے تعلیمی میدان میں بہتری لائیں

واقفانِ حال جانتے ہیں کہ مملکت خداداد پاکستان اپنے قیام کے پہلے دن سے ہنوز مختلف النوع مسائل سے دو چار ہے۔ علاقائی، ملکی، سیاسی، معاشرتی، انفرادی اور اجتماعی، غرض ہر شعبۂ زندگی مسائل کی آندھیوں کی زد میں ہے۔ اخلاق باختگی پستیوں کو چھو رہی ہے، حیا سوزی اپنی آخری حدیں عبور کر رہی ہے، اقربا پروری حقداروں کا استحصال کر رہی ہے، رشوت ستانی پیٹ کا جہنم بھر رہی ہے، ڈاکہ زنی گلی گلی، قریہ قریہ پھیلی ہوئی ہے، بدعنوانی تجوریاں لبریز کر رہی ہے، جنسی بے راہ روی نسلیں تباہ کر رہی ہے، جذبہ و احساس سے عاری تن آسانی چار سو چھائی ہوئی ہے، بد چلنی و بدتہذیبی اخلاقی اقدار کا جنازہ نکال رہی ہے، قتل و غارتگری عہد جاہلیت کو شرما رہی ہے، منصب حکمرانی و مسند سلطانی خوف خدا سے محروم ہوتی جا رہی ہے، راست گوئی کی جگہ کذب بیانی، صداقت شعاری کی جگہ دروغ گوئی اور روا داری کی جگہ تنگ ظرفی ڈیرے ڈالے ہوئے ہے۔ کوئی ایسا المیہ نہیں جو اس عہد خوش خصال میں ہمارے ملک کا مقدر نہ ہو۔

ملکی و ملی سطح ہو یا علاقائی، انفرادی سطح ہو یا اجتماعی، کاروبارِ سیاست ہو یا امورِ سلطنت، مسائل کا منہ زور طوفان کسی طور تھمتا اور رکتا نظر نہیں آتا۔ کیا اس ابتری کی وجہ تعلیم کا فقدان ہے، کیا اس گراوٹ کا باعث اعلیٰ ڈگریوں کے حاملین کی کمی ہے، کیا اس تنزلی کی بنیادی وجہ دولت کی کمی ہے، کیا اس کی وجہ وسائل کی عدم فراہمی ہے، کیا پولیس، انتظامیہ اور عدلیہ کے ادارے قائم نہیں ہیں، کیا اعلیٰ تعلیم کا حصول ممکن بنانے والے کالجز اور یونیورسٹیز نہیں ہیں، کیا ملک میں وضع کیے گئے مسلّمہ قوانین نہیں ہیں، کیا ملک میں احتساب کا بندوبست نہیں ہے، کیا افرادِ کار تیار کرنے والی درس گاہیں نابود ہو گئیں؟

بلاشبہ اعلیٰ تعلیم کے مواقع بھی ہیں، امتیازی شان کی ڈگریوں کے حاملین بھی ہیں، دولت کی بھی فراوانی ہے، وسائل کی فراہمی پر بھی کوئی قدغن نہیں، پولیس، انتظامیہ اور عدلیہ کے ادارے بھی ٹھاٹھ باٹھ سے قائم ہیں، اربوں کا بجٹ رکھنے والے کالجز اور یونیورسٹیز کی بھی خاطر خواہ تعداد موجود ہے، آئین، قانون اور دستور بھی ہے اور احتساب کے ادارے بھی موجود ہیں۔

اس سب کچھ کے باوجود اگر مطلوبہ ثمرات حاصل نہیں ہو پا رہے، تو اس کی واحد اور بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم نے بحیثیت قوم تعلیم کے اہداف و مقاصد پر کبھی بھی وہ توجہ نہیں دی، جس کی ضرورت تھی۔ یہی وجہ ہے کہ عصری علوم کی درس گاہوں سے لاکھوں کی کھیپ ہر سال سروں پر دستارِ فضیلت سجائے نکلتی اور نظم و نسق حکومت کا حصہ بنتی ہے، مگر تربیت یافتہ افراد کا قحط بھی اسی تناسب سے بڑھتا جا رہا ہے۔

ایسے تربیت یافتہ جو اعلیٰ اخلاقی قدروں کے حامل ہوں، جو معاشرے کے ناسور کے لیے نسخۂ کیمیا ثابت ہوں، جو ملک کو دیمک کی طرح چاٹتے امراض کے لیے کارگر دوا ثابت ہوں، جو ملک تعمیر و ترقی کے لیے مثبت پیش رفت کا باعث بنیں، جو ذاتی اغراض سمیٹنے کی بجائے قومی مفادات عزیز رکھتے ہوں، جو زبوں حالی کو خوش حالی میں بدلنے کا دل میں جذبہ و احساس رکھتے ہوں، جن کے ہاں فرائض منصبی اولین ترجیح کا درجہ رکھتے ہوں، جو پلا کر گرانے کی بجائے گرنے والوں کو سنبھالا دینے کے ہنر سے آراستہ ہوں، جو نگاہ بلند، سخن دلنواز اور جاں پرسوز کا مصداق ہوں، جو صداقت شعاری و راست گوئی، امانت و دیانت، عدل و انصاف، خدا خوفی و خود احتسابی اور کسب حلال و پاکیزہ روزگار جیسے اوصاف سے متصف ہوں۔

لہذا تعلیمی میدان میں تدریس جیسے مقدس شعبہ سے وابستہ معماران قوم، مربیان ملت اور مسند نشینان تدریس کو اعلیٰ تعلیم کے ساتھ ساتھ، نسل نو کے ذہن و سوچ کی آبیاری، بلند اخلاقی اقدار کے فروغ، صحت مند افکار کی نشوونما اور تعمیری کردار کی ترویج کے لیے صلاحیتوں کو بروئے کار لانا ہوگا، تاکہ ان دانش گاہوں کے فیض یافتگان کا وجود ملک و ملت کے لیے ثمر آور ثابت ہو اور ہم اقوام عالم میں پورے وقار اور بانکپن کے ساتھ کھڑے ہونے کے قابل بن سکیں۔

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button