آسانیوں کی درسگاہ میں تربیت کا نقصان

انسان دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جن کی تربیت مصائب کی درسگاہ میں ہوتی ہے اور دوسرے وہ جن کی تربیت آسانیوں کی درسگاہ میں ہوتی ہے۔ بظاہر آسانیوں میں پرورش پانا اچھی بات ہے۔ مگر وہ چیز جس کو انسان سازی کہتے ہیں، اس کی حقیقی جگہ صرف مصائب کی درسگاہ ہے نہ کہ آسانیوں کی درسگاہ۔ کسی کا یہ قول نہایت درست ہے کہ سہولت نہیںبلکہ جدوجہد،آسانی نہیں بلکہ مشکل ‘ وہ چیزہے جو انسان کو انسان بناتی ہے۔

زندگی کے سیلاب میں بے شمار لوگ مصیبتوں کی زد میں آتے ہیں مگر مشاہدہ بتاتاہے کہ عام طور پرلوگوں کا انجام دو قسم کا ہوتا ہے۔ ایک وہ لوگ جو مصیبتوں کے مقابلہ میںٹھہر نہیں پاتے اور مایوسی اور دل شکستگی کا شکار ہوکر رہ جاتے۔دوسرے وہ جو مضبوط اعصاب والے ہو تے ہیں ۔ وہ مصائب کا مقابلہ کرتے ہیں اور آخرکار اپنے لیے ایک زندگی بنانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔تاہم دوسرے گروہ کو یہ کامیابی ہمیشہ ایک محرومی کی قیمت پر ملتی ہے۔

مادی تجربات انہیں فکر کے اعتبار سے بھی مادی بنا دیتے ہیں، وہ دیکھتے ہیں کہ مادی چیزوں سے محرومی نے انہیں ماحول میں بے قیمت کر دیا تھا اور جب انہوں نے مادی چیزوں کو پا لیا تو اسی ماحول میں وہ دوبارہ قیمت والے ہو گئے۔ اس تجربہ کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ سراسر مادہ پرست انسان بن جاتے ہیں۔ وہ چیزوں کو کھونے کو کھوناسمجھنے لگتے ہیں اور مادی چیزوں کے پانے کو پانا۔

مصیبتوں میں پڑنے کا اصل فائدہ سبق اور نصیحت ہے، مگر یہ فائدہ صرف اسی وقت بنتا ہے جب کہ آدمی مصیبتوں کی زد میں آئے اور ہلاک نہ ہو۔ وہ زندگی کی تلخیوں سے دوچار ہو مگر وہ ان سے اوپر اُٹھ کر سوچ سکے۔ مصیبتیں اور تلخیاں اس کے لیے تجربہ ثابت ہوں نہ کہ وہ اس کے ذہن کی معمار بن جائیں۔

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button