آزاد خیال امریکی نرس کی کایا کیسے پلٹی؟
وہ امریکہ کی رہنے والی ایک غیر شادی شدہ نرس تھی۔ اُس نے کبھی اسلام اوراسلامی تعلیمات کے بارے میں نہ تو جاننے کی کوشش کی تھی ، نہ کسی نے اُسے اسلامی تعلیمات کی آفاقیت کے بارے میں کچھ بتلایا تھا۔ وہ آزاد خیال دوشیزہ تھی۔ ایک ہسپتال میں نرس کی خدمات انجام دیتی اور ڈیوٹی کے بعد ٹیلی ویژن دیکھنے میں اپنا وقت گزارتی۔ ایک روز وہ ٹیلی ویژن کے پروگرام دیکھنے میں مشغول تھی کہ اس کے ریموٹ کا بٹن ایک ایسے چینل پر دب گیا جس پر اسلام اور اسلامی تعلیمات کے حوالے سے پروگرام ہو رہا تھا۔
یہ پہلا موقع تھا کہ اُس نے اسلامی تعلیمات کے حوالے سے کوئی چینل دیکھا تھا۔ اُس نے نہ چاہتے ہوئے بھی تھوڑے سے وقت کے لیے سہی، اسلامی تعلیمات پر مبنی پروگرام کا بغور مشاہدہ کیا۔ مگر اُس پروگرام میں کوئی بات ایسی نہیں لگی جو متاثر کن ہو۔ چنانچہ اُس نے اِس پروگرام کو ایک غیر ضروری پروگرام قرار دیا بلکہ اسے یہ پروگرام مضحکہ خیز لگا اور یکایک اس کی ہنسی نکل گئی۔
اس کا بیان ہے کہ میں نے پہلی بار اسلام کے بارے میں جو کچھ سنا وہ اسی چینل سے سنا۔ چینل میں جو معلومات پیش کی جا رہی تھیں وہ میرے لیے مضحکہ خیز تھیں۔ میں ایک ہسپتال میں نرس کا کام کرتی تھی۔ دوسری مرتبہ مجھے اسلام کے بارے میں اسی ہسپتال میں سننے کا موقع ملا جس میں میری ڈیوٹی تھی۔ واقعہ یہ ہے کہ ایک مسلم جوڑا ہسپتال میں داخل ہوا۔ ان کے ساتھ ایک سن رسیدہ بیمارخاتون بھی تھی۔ خاتون کو انہوں نے داخل کرا دیا۔ اتفاق سے یہ مریضہ میری ہی نگرانی میں تھی۔ دونوں میاں بیوی مریضہ کی حالت سے بہت گھبرائے ہوئے تھے۔
شوہر نے بیوی کو مریضہ کے پاس ایک کرسی پر بٹھا دیا۔ بیمار خاتون ، شوہر کی ماں اور بیوی کی ساس تھی۔ میں نے اپنی نگرانی کے دوران دیکھا کہ بیوی بار بار مریضہ کی کیفیت پر افسوس کا اظہار کرتی۔ اس کی آنکھوں سے آنسو رکنے کا نام ہی نہیں لیتے تھے۔ مجھے اُس کا رونا اور بوڑھی مریضہ پر اس قدر آنسو بہانا فضول محسوس ہو رہا تھا۔ میں اس بارے میں اُس سے کچھ پوچھنا نہیں چاہتی تھی، مگر پوچھ ہی بیٹھی۔ میں نے اس عورت سے کہا کہ آخر کیا وجہ ہے تم اس بوڑھی مریضہ پر اس قدر آنسو بہا رہی ہو؟ یہ تو عمررسیدہ ہے اور عمر رسیدہ لوگ بیمار پڑ ہی جاتے ہیں۔پھر اس قدر آنسو بہانے کی وجہ کیا ہے؟
عورت نے جواب دیا: میں اپنے شوہر کے ساتھ ساس کے علاج کے لیے بیرونِ ملک سے آئی ہوں۔ میرا شوہر اندرون ملک علاج کراتا رہا ، جب وہاں مناسب علاج نہ ہو سکا تو ڈاکٹروں کے مشورے کے مطابق ہم مریضہ کو لے کر علاج معالجہ کے لیے یہاں آ گئے، تاکہ یہاں مناسب علاج ہو سکے۔
دورانِ گفتگو وہ عورت اپنی ساس کی شفایابی اور صحت یابی کے لیے بار بار دعائیں کرتی تھی اور اس کے آنسوؤں کی لڑی ٹوٹتی نہیں تھی۔ مجھے یہ دیکھ کر تعجب ہوا ، میں چند لمحے کے لیے کسی سوچ میں کھو گئی۔ میں دل ہی دل میں کہہ رہی تھی:
’’اِس عورت کو دیکھو جو اپنے شوہر کے ساتھ اس کی ماں کے علاج کے لیے بیرون ملک آئی ہے اور ساس کی کس قدر خدمت گزار ہے۔ میں نے تو کبھی اپنی ماں کی خدمت کے بارے میں بھی نہیں سوچا۔ چار ماہ ہو گئے ہیں، میں نے اپنی ماں سے ملاقات تو کجا، اس کی خیریت معلوم کرنے کی بھی زحمت نہیں کی۔ بلکہ آج بھی میرے دل میں اپنی ماں سے ملاقات کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ اپنی سگی ماں کے ساتھ میرا یہ رویہ ہے، بھلاشوہر کی ماں ہوتی تو میں کہاں تک اس کی خدمت کرسکتی تھی۔‘‘
اُن دونوں میاں بیوی کا ماں اور ساس کے ساتھ حسنِ سلوک دیکھ کر میں حیرت زدہ تھی۔ خاص طور پر ایسی صورت میں جبکہ ماں کی حالت ناگفتہ بہ حد تک تشویش ناک تھی۔ مجھے اس بات سے بھی بڑا تعجب ہوا کہ بھلا یہ مریض خاتون جس نے زندگی کے دن پورے کر لیے ہیں اور اب اس کے مرنے کا وقت قریب آ پہنچا ہے، تو بھلا ایسی صورت میں کون سا ایسا جذبہ ہے کہ جس نے اس جوڑے کو مجبور کیا کہ بیرون ملک علاج کے لیے جائیں جب کہ یہ علاج بھی خاصا مہنگا ہے۔
میں ساس کے بارے میں بہو کی کیفیت اور ماں کے بارے میں بیٹے کی بے چینی دیکھ کر حیرت میں پڑ گئی۔ میرے دل و دماغ میں اب اس حوالے سے ہی سوالات اُٹھتے۔ میں اپنی ماں کے ساتھ اپنے سلوک اور امریکیوں کے اپنی ماؤں کے ساتھ جو ناروا سلوک دیکھتی تھی، اس پر میں بار بار غور کرتی تھی۔ حتیٰ کہ بوڑھی مریضہ کی اس قدر خدمت ہوتے دیکھ کر مجھے رشک آنے لگا کہ اے کاش! اس بوڑھی خاتون کی جگہ میں خود مریضہ ہوتی۔ اے کاش! میرے بارے میں بھی میرے عزیز واقارب اسی طرح فکر مند ہوتے۔
مجھے اس بات سے بھی سخت تعجب ہو رہا تھا کہ جب سے میاں بیوی نے اپنے مریض کو ہسپتال میں داخل کیا تھا، اسی دن سے انہیں اپنے ملک سے بار بار ٹیلیفون آرہے تھے۔کوئی ان سے مریض کی حالت پوچھتا، کوئی ان کے حالات دریافت کرتا، کوئی اپنی ہمدردی جتاتا، کوئی اپنی خدمات پیش کرنے کی یقین دہانی کراتا۔
ایک روز میں ویٹنگ ہال میںداخل ہوئی تو دیکھا کہ وہ خاتون تنہا بیٹھی ہوئی ہے۔اس کا شوہر ساتھ نہیں تھا۔میں نے موقع کو غنیمت جان کر اس سے اپنے ذہن میں ابھرتے ہوئے سوالات کے بارے میں پوچھنا چاہا۔ اُس نے میری باتیں سننے کے بعداسلام کے حوالے سے بہت ساری مفید باتیں بتلائیں اور اسلامی تعلیمات میں والدین کے حقوق و احترام کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔
میں نے حقوقِ والدین کے بارے میں اسلام کی پاکیزہ تعلیمات سنیں تو میرے کان فوراًکھڑے ہو گئے۔ میں اپنے آپ کو کوس رہی تھی کہ میں کس قدر بدنصیب ہوں کہ آج تک مذہبِ اسلام کی تسکین بخش روحانیت بھری تعلیمات سے کوسوں دور تھی۔ والدین کے حقوق کے بارے میں کس قدر صاف ستھری اور دل کو لگنے والی اسلامی تعلیمات ہیں۔یہ پہلا موقع تھا کہ میرے اندر اسلام کی محبت کا جذبہ پیدا ہوا اور اسلام کے حوالے سے معلومات حاصل کرنے کی طلب پیدا ہوئی۔
اُن دونوں میاں بیوی نے مریضہ کی خدمت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ بیٹا اور بہو دونوں رات بھر اس کی خدمت میں لگے رہتے۔ جب کبھی مریضہ کی حالت بہتر لگتی تو اُن کے چہرے خوشی سے دمک اُٹھتے۔ جب صحت ناسازگار ہوتی تو ان پر افسردگی چھا جاتی۔ ایک دن مریضہ اچانک اللہ کو پیاری ہو گئی۔ جب اس کے بیٹے اور بہو کووفات کی اطلاع دی گئی تو انہوں نے رونا شروع کردیا۔ دونوں کی آنکھوں سے آنسوؤں کی برسات ہونے لگی۔ وہ یوں پھوٹ پھوٹ کر روئے، جیسے بچے بلک بلک کر روتے ہیں۔
اس واقعے کے بعد میرا اپنا حال یہ ہو گیا کہ اسلام اور اسلامی تعلیمات کے بارے میں میرا نظریہ یکسربدل گیا۔ میں اسلام کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی کوشش میں لگ گئی۔ جب سے میں نے اس خاتون سے حقوق والدین کے سلسلے میں سنا تھا اور خود بھی میاں بیوی کا مریضہ کے ساتھ پُرسوز طرزِ عمل دیکھا تھا ، میں اسلام کے بہت قریب آ گئی تھی۔
میں نے اپنے نمائندے کو ایک اسلامی مرکز میں بھیج کرحقوقِ والدین کے موضوع پر کتابیں منگوائیں اور مطالعہ شروع کر دیا۔ جوں جوں میرا مطالعہ وسیع ہوتا گیا میں اسلام کی طرف بڑھتی چلی گئی۔ والدین کے حقوق کے حوالے سے جب میں کتابوں کے مطالعہ میں محو ہوتی تو میں خود کو ایک بوڑھی ماں خیال کرتی اور تصوراتی دنیا میں چلی جاتی ۔ مجھے محسوس ہوتا کہ میں ایک عمر رسیدہ ماں ہوں اور میرے اردگرد میرے بچے ہیں جو میری بے انتہا خدمت کررہے ہیں اور مجھ سے اپنی محبت اور ہمدردی کا اظہار کررہے ہیں۔
اسلام میں ماں باپ کے حقوق کی تعلیمات پڑھ کر ہی مجھے اسلام سے شدید محبت ہو گئی، چنانچہ میں نے قبول اسلام کااعلان کر دیا۔ میں نے اسلام کی جملہ روح پرور تعلیمات اور اس کے پاکیزہ اسباق پڑھے بغیر صرف والدین کے حقوق ہی کے حوالے سے معلومات حاصل کرکے قبولیت اسلام کا اعلان کر دیا۔ حقوق والدین کے علاوہ میں نے اسلام کی دوسری تعلیمات کامطالعہ نہیں کیاتھا۔
الحمد للہ آج میں ایک مسلمان خاتون ہوں۔ اللہ کے فضل و کرم سے میں نے ایک انتہائی شریف النفس صالح مسلمان سے شادی کر لی ۔ اس سے میری اولادبھی ہوئی۔میں برابر ان کی ہدایت و توفیق کی دعائیں کرتی رہتی ہوں۔ آج میں ’’ام عبدالمالک‘‘ ہوں ۔ آپ سے گزارش ہے کہ آپ جہاں بھی ہوں مجھے اپنی دعاؤں میں ضرور یادرکھیں۔ میری اور میری اولاد کی ثابت قدمی کی دعا کرنا نہ بھولیں۔