پنجاب کا اصل کلچر گاؤں میں باقی ہے

ہر سال 14 مارچ کو پنجاب کلچر ڈے منایا جاتا ہے جس میں پنجابی ثقافت کے خوبصورت رنگوں کو پیش کیا جاتا ہے، پنجاب آبادی کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے جس میں مختلف اقوام آباد ہیں جو رنگ و نسل اور زبانوں کے اعتبار سے مختلف ہیں ایسی صورتحال میں پنجاب کا کلچر مختلف اقوام میں بٹ کر وسیع ہو جاتا ہے، اکثر لوگوں کی زبان پنجابی ہے، مؤرخین تو یہاں تک کہتے ہیں کہ پنجابی کلچر پنجاب تک محدود نہیں ہے بلکہ سرحد پار بھارت، کینیڈا اور برطانیہ سمیت کئی دیگر مغربی ممالک میں ہے۔

پنجابی کلچر میں وقت کے ساتھ ساتھ بہت تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں مگر شہروں کے برعکس گاؤں دیہات میں اب بھی پنجاب کا اصل کلچر موجود ہے، جہاں پر گاؤں کے لوگ دیسی انداز میں زندگی بسر کر رہے ہیں جن کا رہن سہن نہایت سادہ ہے، دیہاتوں میں اب بھی کچے مکانات موجود ہیں۔ ناپختہ گلیاں، چھاؤں کیلئے گھر کے صحن میں درخت اور ٹھنڈے پانی کیلئے مٹی کا گھڑا اور روایتی چولہے دیکھنے کو ملتے ہیں جن کے اردگرد گھر کے لوگوں کی محفل جمتی ہے۔ چولہے کے گرد گھر کے افراد کی محفل کے خوبصورت پہلو ہیں جو پنجاب کے سبھی گھروں کا لازمی جزو تصور کیا جاتا ہے۔

پنجاب کا روایتی کچن جہاں پر گھر کے سبھی افراد اکٹھے کھانا کھاتے ہیں

کلچر چونکہ رہن سہن اور غذاؤں کا نام ہے تو پنجاب کے دیہاتوں میں اکثر لوگ خالص غذائیں استعمال کرتے ہیں، ہر گھر میں گائے، بھینس اور بکریاں موجود ہوتی ہیں جن سے خالص دودھ میسر آتا ہے۔ جانوروں کو پالنے میں انہیں کسی قسم کی دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑتا کیونکہ ہر گھر کی اپنی زمین ہوتی ہے جہاں پر جانوروں کیلئے چارہ کاشت کیا جاتا ہے، اپنی زمین نہ بھی ہو تو گھاس کہیں سے بھی حاصل کیا جا سکتا ہے۔ ان جانوروں سے خالص دودھ، دہی، مکھن اور گھی دستیاب کیا جاتا ہے جو فروخت کرنے کیلئے نہیں بلکہ اپنے استعمال کیلئے ہوتا ہے، خالص غذاؤں کی وجہ سے گاؤں دیہات والوں کی صحت اچھی ہوتی ہے۔ سرسوں کا ساگ اور مکھن پنجابی کلچر کی پہچان بن چکا ہے، جسے نہ صرف پنجاب بلکہ پورے پاکستان اور ملک سے باہر بھی پسند کیا جاتا ہے۔

پنجاب کی سوغات سرسوں کا ساگ اور پراٹھے

پنجاب کی زمینیں سونا اگلتی ہیں، پانی میٹھا ہے زمینیں زرخیز ہیں، جن پر ہر طرح کی فصل کاشت کی جا سکتی ہے۔ یوں اکثر لوگوں کا ذریعہ معاش زراعت ہے، گندم، جو، کپاس، مکئی، گنا، آلو، پیاز ٹماٹر اور ہر طرح کی سبزیاں پنجاب کی زمینوں کی پیداوار ہیں۔ گندم کی کٹائی اور ہر فصل کے بعد پنجاب میں میلے لگتے ہیں جہاں کبڈی اور دیگر کھیلوں کے مقابلے ہوتے ہیں، وقت کے ساتھ ان میلوں میں کمی آتی جا رہی ہے۔ گاؤں کی صاف شفاف صبح کا کوئی نعم البدل نہیں ہے شہروں میں ایسی نکھری صبح کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا ہے، ٹریکٹر ٹرالی اور ریڑھی تقریباً ہر گھر کی زینت ہوتی ہے، ٹریکٹر کو گھر کی شان سمجھا جاتا ہے۔

پنجاب میں ٹریکٹر کو گھر کی شان سمجھا جاتا ہے

پنجابی کلچر کی خوبصورت بات یہ ہے کہ خوشی و غمی سانجھی ہوتی ہے، لوگ خوشی غمی کے مواقع پر بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ جب کسی گھر میں فوتگی ہو جائے تو رشتہ دار اور پڑوسی تمام ذمہ داریاں سنبھال لیتے ہیں، تجہیز و تکفین اور قبر کے سارے انتظامات کے حوالے سے اہل خانہ کو کسی قسم کی پریشانی نہیں ہوتی ہے۔ فوتگی کے ابتدائی چند روز تک کھانے کا بندوبست رشتہ دار یا قریبی عزیز کرتے ہیں، شہری زندگی میں اس طرح کے مناظر کم ہی دیکھنے کو ملتے ہیں۔

گاؤں میں جب کسی ایک گھر میں شادی بیاہ ہوتی ہے تو سارا گاؤں خوشی سے سرشار ہوتا ہے، شادی سے کئی روز پہلے مہمانوں کی آمد اور ہلہ گلہ شروع ہو جاتا ہے۔ غمی کی طرح شادی کے مواقع پر بھی قریبی عزیز اور دوست احباب بھرپور ساتھ دیتے ہیں، بہت سے اہم کام رشتہ دار سنبھال لیتے ہیں۔ شہروں میں جن کاموں کے لئے بھاری رقم خرچ کر کے لوگوں کی اجرت پر خدمات حاصل کی جاتی ہیں گاؤں دیہات میں وہ کام مفت میں بحسن خوبی ہو جاتے ہیں۔بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ اگر صاحب خانہ نے کام کاج کیلئے رشتہ داروں کی بجائے اجرت پر لوگ رکھ لئے تو رشتہ دار ناراض ہو جاتے ہیں۔ ان تقریبات میں پنجاب کے خوبصورت ثقافتی رنگ دیکھنے کو ملتے ہیں۔ آج کل کی ماڈرن شادیوں میں جتنے گیت گائے جاتے ہیں وہ سارے دیہی زندگی پر منبی ہیں جو برسوں پر گائے گئے تھے مگر ان کی مقبولیت میں کمی نہ آئی۔

پنجابی شادی کی عکاسی کرتی خوبصورت تصویر

شادی کے مواقع پر روایتی کھانوں سے مہمانوں کی توازع کی جاتی ہے عام طور پر کسی جانور کو ذبح کر کے اس کا گوشت مہمانوں کا کھلایا جاتا ہے۔ کھانا تیار کرنے والے نائی ہوتے ہیں جنہیں ’’سائی‘‘ پر رکھا جاتا ہے، سائی کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ سارا سال خدمت کرتے ہیں اور جب فصل تیار ہوتی ہے تو انہیں گندم دی جاتی ہے، خوشی و غمی کے مواقع پر خدمت کرنے والوں کو کمی کمار بھی کہا جاتا ہے، اگرچہ یہ نامناسب الفاظ ہیں لیکن چونکہ ہم کلچر کو بیان کر رہے ہیں تو یہ کلچر کا لازمی حصہ ہیں۔ خوشی کے مواقع پر پنجابی ڈھول کی تھاپ پر پنجابی جھومر خوشی کو دوبالا کر دیتا ہے، مگر اب نوجوان نسل جھومر ڈالنا نہیں جانتی ہے، اس کی جگہ کرائے پر ناچنے والے منگوائے جاتے ہیں۔

پنجابی کلچر کا خوبصورت پہلو یہ بھی ہے کہ شام کے وقت جب اکثر لوگ اپنے اپنے کاموں سے فارغ ہو جاتے ہیں تو ڈیروں میں آ جاتے ہیں یہ ڈیرے یا بیٹھک ہر دوسرے گھر میں ہوتا ہے یا جہاں جانوروں کو رکھا جاتا ہے اس کے آس پاس کھلی فضا میں وسیع جگہ پر چاپائیاں ڈال دی جاتی ہیں جو گاؤں کے مکینوں کے لئے انٹرٹینمنٹ کا اہم ذریعہ ہوتا ہے۔ کسی زمانے میں گلی ڈنڈا گاؤں کے بچوں کا مقول کھیل سمجھا جاتا تھا مگر جب سے ٹی وی اور انٹرنیٹ آیا ہے گاؤں میں روایتی کھیلوں کے رجحان میں کمی آئی ہے۔

پنجابی پنچایت کا ایک منظر

ہر گاؤں کا ایک نمبر دار ہوتا ہے جو مقامی مسائل کو صلح صفائی اور پنجایت کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کرتا ہے، پنچایت پنجابی کلچر کا اہم جزو ہے، پنچایت میں بزرگوں کی مہارت سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے، ایسے مواقع بھی آتے ہیں کہ جب کسی بڑے بزرگ نے کوئی مسئلہ حل کر دیا تو مدعی اور مدعاعلیہ کو وہ قبول کرنا پڑتا ہے۔ یہ زور زبردستی نہیں ہوتا بلکہ بزرگوں کے احترام کی وجہ سے ہوتا ہے۔

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button