نزار قبانی، عربوں کے آزاد خیال شاعر
پچھلی صدی عیسوی میں عرب سے خلیل جبران نے بحیثیت فلسفہ، مجیب محفوظ بطور نثر نگار اور نزار قبانی نے بطور شاعر ہمارے اردو تراجم میں خوب جگہ بنائی، نزار بن توفیق القبانی سن ہجری پیدائش ۱۳۴۲ سنہ ہجری انتقال ۱۴۱۹ سنہ پیدائش 1923 سنہ انتقال 1998ء بطور شامی سفارت کار Syrian Diplomat اور بطور عوامی شہرت بطور شاعر مقبولیت پائی تھی، بلکہ اپنی شاعری میں منفرد طرز سے محبت، شہوانیت، نسائیت، عرب قوم پرستی اور مذہب کے موضوعات کو بہت خوبصورتی سے پیش کیا ہے۔
نزار قبانی نہ صرف شاعر بلکہ ادیب اور ناشر بھی تھے، مگر انہیں عرب دنیا میں عہد عصر کا سب سے معتبر شاعر مانا جاتا ہے اور ملک شام میں تو نزار قبانی کی حیثیت قومی شاعر جیسی ہے۔ نزار قبانی21 مارچ سنہ 1923 کو شام کے ایک قدیم مقامی قبیلہ "قبان” تاجر خاندان میں پیدا ہوئے، نزار قبانی کے دادا ابو خلیل القبانی کی مقبولیت شام میں عرب تھیٹر کے علمبردار کی حیثیت سے تھی، جنہوں نے شام میں عرب تھیٹر زندہ کیا تھا۔ نزار قبانی کی والدہ فائزہ اکبک ترک تھیں۔
نزار قبانی نے دمشق میں ابتدائی تعلیم National Scientific College School سے اور پھر معروف شامی یونیورسٹی Syrian University سے سنہ 1945 میں قانون کے شعبے میں گریجویشن Bachelor’s degree in Law کی تعلیم حاصل کی، نزار قبانی کے والد کے دوستوں کا تعلق عرب نیشنلزم Arab Nationalism سے تھا جو ان کی قانون کی طرف تعلیم کی دلچسپی کا باعث بنا تھا، اسی برس سنہ 1945 میں گریجویشن کرنے کے بعد Diplomatic corps میں شامل ہوگئے، پھر دنیا بھر کے مختلف دارالحکومتوں میں رہے، جن میں بیروت، قاہرہ، استنبول، میڈرڈ اور لندن تھے، سنہ 1958 میں United Arab Republic بنی تو نزار قبانی بطور وائس سیکریٹری متعین کئے گئے تھے، اپنی ملازمتی دورانیہ میں بھی نزار قبانی تسلسل کے ساتھ لکھتے رہے تھے، لکھنا تو زمانہ طالب علمی سے ہی جاری رہا تھا، نزار قبانی کی کتابی مجموعے کہ پہلی کتاب سنہ 1944 میں "قالت لي السمراء” "The Brunette Told Me” کے نام سے شائع ہوئی تھی، نزارقبانی نے سنہ 1966ء میں اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔
اسی دوران نزار قبانی نے اپنی کتابوں کی اشاعت کے لئے بیروت میں "نزار قبانی پبلی کیشنز” کے نام سے اپنے کاموں کے لیے ایک پبلشنگ ہاؤس بھی قائم کیا تھا، نزارقبانی نے اس کے بعد تصنیف و اشاعت کا سلسلہ جاری رکھا، قریب نصف صدی کے دوران نزار قبانی نے 35 مجموعے لکھے، جن میں خاص طور پر "طفولة نهد” (نہد کا بچپن) اور”الرسم بالكلمات” (الفاظ کے ساتھ پینٹنگ) نے خاصی شہرت پائی، نزار قبانی کی نظموں میں دمشق اور بیروت کی محبت کی وجہ سے ان کی نظموں میں ان مقامات کو خاص مقام حاصل تھا۔
ان میں سے ایک سب سے نمایاں "القصيدة الدمشقية” "دمشق نظم” ہے۔ اور "يا ست الدنيا يا بيروت” (O Six of the World,O Beirut) اس نظم نے عرب میں سنہ 1967 کی جنگ شروع کروائی تھی، نزار قبانی نے جو نظمیں محبت، حزن و ملال پر اپنے روایتی انداز سے لکھی تو اسے”شاعر الحب والمرأة” "” محبت اور خواتین کا شاعر بھی کہا گیا، نزار قبانی نے جب سیاست پر اپنا مجموعہ لکھا "هوامش على دفتر النكسة” مارجنز آن دی سیٹ بیک بک””Margins on the Setback Book” اس نے عرب دنیا میں ایک طوفان برپا کردیا تھا، جس کی وجہ سے انہیں حکومت کی جانب سے میڈیا میں نظموں پر پابندی تک کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
نزار قبانی کی شاعری پر اس کی نجی زندگی کا اثر
نزار قبانی نے اپنی زندگی میں بہت سے سانحات کا سامنا کیا، جن کا شائد اس کی شاعری پر بہت اثر رہا، اسی لئے قانون روایات معاشرے کو جھنجھوڑتی شاعری کا رنگ نظر آتا تھا، نزار قبانی جب 15 برس کا تھا تب اپنی 25 سالہ بہن کی بچپن میں خودکشی دیکھی تھی، اس کی بہن کی خودکشی کی وجہ اس کا مرضی سے شادی نہ ہونا تھا، اس کے جنازے پر نزارقبانی نے ان غلط معاشرتی روایات پر آواز اٹھانے کا سوچا، یہی وجہ تھی کہ نزار کی شاعری میں نسائیت کا اظہار نظر آتا تھا، جس کی وجہ سے انہیں عرب دنیا میں پروگریسو اور فیمنزم کا داعی بھی سمجھا جاتا تھا، اسی لئے جب ان سے کہا جاتا تھا کہ تم انقلابی ہو؟ تو نزار کا کہنا تھا کہ عرب دنیا میں جیسے قید میں ہے، میں اسے آزاد دیکھنا چاہتا ہوں، میں عربوں کی روحوں کو آزاد دیکھنا چاہتا ہوں، اسی لئے میری شاعری میں شعور کے ساتھ جسم کہ محبت ملتی ہے، میں مرد و زن کے تعلقات کو عرب معاشرے میں صحتمند دیکھنا چاہتا ہوں۔”
نزار قبانی کی پہلا مجموعہ "قالت لي السمراء” مکمل رومانوی قصائد پر مشتمل تھا جو عورت کے احساس، وجود اور محبت کے تعلق کے گرد گھومتا تھا، محبت حزن و ملال کی شاعری سے ہٹ کر نزار قبانی نے "القصيدة الدمشقية” لکھا جو ایک انتہائی موثر کردار کی حامل رہا، جس نے سنہ 1967 کی چھ روزہ عرب جنگ کے نوحے بنے، اس نے انہیں سیاسی شاعری کی طرف پھیر دیا، "هوامش على دفتر النكسة” کی نظم نزار قبانی نے عربوں کا خود کو کمتر سمجھنے پر دائیں اور بائیں بازو کی سیاست میں دونوں پر تنقیدی جائزے کے طور پر پیش کیا تھا۔
نزار قبانی نے دو شادیاں کی تھیں، ان کی پہلی بیوی زہرہ اکبیک سے ان کا بیٹا توفیق بائیس برس کی عمر میں لندن کے قیام میں دل کا دوری پڑنے سے انتقال کرگیا تھا، اپنے بیٹے توفیق کی موت پر نزار قبانی نے افسوس کا اظہار اپنی نظم "قصيدته الأمير الخرافي توفيق قباني” سے کیا، ان کی دوسری بیوی عراقی خاتون بلقیس الروی تھیں، جس سے بغداد میں ملاقات ہوئی اور پھر شادی، مگر بدقسمتی سے بیروت میں وہ لبنانی سول وار میں سنہ 1981 میں عراقی ایمبیسی پر بم دھماکے میں زد میں آ کر ہلاک ہوگئیں۔
اس واقعے میں نزار قبانی کی بیوی بلقیس کے علاوہ بیٹا عمر اور بیٹی زینب بھی اس حادثے کی نذر ہوئے۔ اس واقعے نے بھی نزار قبانی پر شدید نفسیاتی اثر چھوڑا، نزار قبانی نے اپنی بیوی بلقیس کی حادثاتی موت پر اپنی مشہور نظم ” بلقیس” لکھی جس میں اس نے پوری عرب دنیا کو اپنی بیوی کی موت کا ذمہ دار ٹھہرایا، بلقیس کی موت کے بعد نزار قبانی نے پھر شادی نہیں کی، بیٹے توفیق اور بلقیس کی موت کے بعد نزار قبانی کی صحت تسلسل سے گرنے لگی ، اور اس کی شاعری کا موضوع زیادہ تر سیاست کی جانب ہو گیا، نزار قبانی نے اپنی زندگی کے آخری سال لندن میں گزارے اور سیاسی شاعری لکھتے ہیں اپنی آخری نظموں سے قصائده الأخيرہ متى يعلنون وفاة العرب؟
عربوں کی موت کا اعلان کب کریں گے؟ "(?When will they announce the death of the Arabs) اور "ألثوم على قائمة التطبيع ” (ام کلثوم کو معمول پر لانے کی فہرست میں”، لکھیں، نزارقبانی کا انتقال 30 اپریل سنہ 1998 کو ہوا نزار قبانی کی تدفین آبائی شہر دمشق میں ہوئی۔ ایوارڈ و اعزازات :
1- نزار قبانی کو سنہ 1992-1993 میں الاویس ایوارڈ "کلچرل ایوارڈ” سے نوازا گیا ۔
2- اکیس مارچ سنہ 2016 میں گوگل کی جانب سے Google Doodle نے نزارقبانی کی 93 ویں سالگرہ کے دن ان سے سے منسوب کیا تھا۔ پچھلی صدی کے سب سے مقبول عربی شاعر کی حیثیت سے نزارقبانی کی شاعری کے مجموعوں کے ترجمے انگریزی، اٹالین، نیپالین، ہندی، اردو اور رشین زبانوں میں ہوئے۔ نزار قبانی کی کئی مشہور نظموں کو عرب گلوکاروں نے گایا، نزار قبانی کی 35 مجموعے صرف شاعری پر شائع ہونے کے ساتھ ساتھ کچھ نثری کتب بھی ہیں۔