اذان پر پابندی لگانے والا متکبر افسر
ایک افسر کا واقعہ ہے کہ اس نے ایک کوٹھی خریدی۔ قریب مسجد تھی، فجر کی اذان ہوئی اور آنکھ کھل گئی۔ اگلے دن مؤذن کو بلا کر کہہ دیا کہ فجر کی اذان سپیکر میں نہ دیا کرو ! میری نیند میں خلل آتا ہے۔ اس نے کہا جی بوڑھے لوگ جن کو گھڑی پر وقت نہیں دیکھنا آتا، گھڑیاں نہیں ہوتیں وہ تو اذان کی آواز سن کر ہی مسجد میں آتے اور نماز ادا کرتے ہیں۔ آپ بھی صبح جلدی اُٹھ جائیں تو صبح سیر کیا کریں۔ کہنے لگا: میرے آگے باتیں بناتے ہو، خبردار جو صبح اذان دی۔ مؤذن نے اگلے دن پھر اذان دے دی۔
اب جب افسر کی مؤذن سے ملاقات ہوئی تو افسر نے اُسے تھپڑ مار دیا کہ میںنے نہیں کہا تھا کہ اذان نہیں دینی۔ اب جب اس نے تھپڑ مارا تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے پکڑآ گئی ۔سب سے پہلے یہ ہوا کہ اس کے دونوں ہاتھوں پر فالج گرا اور وہ لکھنے اور ہاتھ ہلانے سے قاصر ہو گیا۔ دفتر والوں نے چھٹی کرا دی۔ وہ جو آمدنی آتی تھی رشوت کی اور پتہ نہیں کیا کیا، وہ ختم ہو گیا، گھر بیٹھ گئے۔ اب جب گھر بیٹھ گیا تو شاہانہ مزاج تھا، ہر وقت بیوی کو جلی کٹی سناتا۔
بیوی بے چاری خدمت کرتی، کھانا کھلاتی، کپڑے بدلواتی، کیا کیا کرتی لیکن ادھر سے گالیاں سنتی۔ کچھ عرصے بعد تنگ آ گئی ۔ اس نے کہا اچھا میںتو میکے جا رہی ہوں۔ بھائی کو خط لکھا کہ میں اس وقت بے سہارا ہوں آپ مجھے اپنے پاس لے جائیں۔ بھائی لینے آ گیا، اس نے بچوں کو لیا اور چلی گئی۔
اس دوران اس پر دوسرا فالج کا اٹیک ہوا۔ دونوں ٹانگیں بھی سینے کے ساتھ لگ گئیں۔ اب زندہ لاش نہ ہاتھ ہلتے ہیں، نہ ٹانگیں ہلتی ہیں، بھائی کے گھر پہنچ گیا۔ اب کون کیسے خدمت کرے؟ نہ کھا سکتا ہے، نہ پی سکتا ہے، نہ اپنی ضروریات کے لیے ہاتھ ہلا سکتا ہے۔ کون اس کو دھلوائے؟
کون بچوں کی طرح اس کی نجاست دھوئے، کون کپڑے بدلوائے؟ بھائی کے بیوی بچے بھی چند دن میں تنگ آ گئے کہ جی ہم سے تو نہیں ہوتا یہ کام۔ پھر کسی دن بھائی کی بیوی سے بھی ناراض ہو گیا۔ کوئی سخت بات کہہ دی اس کی زبان قابو میں نہیں تھی۔جب اس کو کوئی گالی دے دی تو بھائی نے کہا کہ بجائے اس کے میرا رشتہ بیوی سے خراب ہو، بھائی نے اپنے بیٹوں کے ساتھ مل کر گرمیوں کا موسم، غصے میں آ کر چارپائی اُٹھائی اور باہر سڑک کے کنارے ڈال دیا۔
اب نو دس بجے سورج کی دھوپ ذرا تیز ہوئی تو پسینہ آ رہا ہے، پیاس لگی، بھوک لگی، کھایا پیا کچھ نہیں تھا۔ اب رو رہا ہے کہ کوئی مجھے کھانے کو کچھ دے دے۔ اگلے دن سے فاقہ تھا، ایک آدمی نے گزرتے ہوئے دو روپے دیے، اس نے کہا میں دو روپے نہیں لیتا، مجھے آپ روٹی دو مجھے بھوک لگی ہوئی ہے۔ اس نے جا کر روٹی لادی کہ کھا لے۔
اس نے کہا کہ میرے ہاتھ ہی کام نہیں کرتے۔ اس نے کہا: میرے پاس اتنا وقت نہیں ہے میں جا رہا ہوں۔ کہنے لگا: پھر روٹی مجھے پکڑا دو۔ پاؤں اس کے سینے سے لگے ہوئے تھے، اپنے پاؤں کی انگلی اور انگوٹھے کے درمیان اس نے روٹی پکڑی اور اپنے منہ سے نوچ نوچ کر کھا رہا تھا جیسے جانور روٹی کھاتا ہے! پاؤں سے پکڑ کر منہ سے نوچتا ہے۔ یہ فرسٹ کلاس گیلری کا بیٹا اپنے پاؤں کے انگوٹھوں میں روٹی پکڑے اپنے منہ سے نوچ کے کھا رہا ہے۔
جب انسان اللہ رب العزت کی نعمتوں کی ناشکری کرتا ہے تو پروردگار اس کا یہ حشر کرتے ہیں۔ اپنی اوقات کو بندہ بھول جاتا ہے۔ زبان چلانی آسان، جواب دینا مشکل کام۔ پوچھیں گے، تم دنیا میں میری نعمتوں کا کیا شکر ادا کرتے رہے؟ آج وقت ہے صحیح معنوں میں انسان بننے کا، اپنی اوقات کویاد کرنے کا، جتنی غیبتیں کیں ان کی فہرست بنا کر ان سب سے معافی مانگ لیں۔ اپنے بوجھ کو آج دور کر لیجئے، ایسا نہ ہو کہ یہ چراغ زندگی گل ہو جائے اور ہم حق والوں کے جھرمٹ میں قیامت کے دن پھنس جائیں۔
آج تو لوگ اللہ رب العزت کاشکر ادا نہیں کرتے۔ ہم میں سے کتنے ہیں کہ جن کی زبان سے بے اختیار نکلے الحمدللہ، اللہ سب تعریفیں آپ کے لیے ہیں۔ اتنا کچھ آپ نے مجھے دیا میں تو اس قابل نہیں تھا۔ ہم اللہ تعالیٰ کے شکر گزار بندے بنیں، عبادات کریں اور اپنے رب کو منائیں۔