رسمی ملاقاتوں میں اپنا وقت ضائع نہ کریں
ناکارہ دوستوں کے پاس بیٹھ کر یا رسمی ملاقاتوں میں وقت ضائع کرنے کی بجائے اپنے کام پر توجہ دیں
سالزنیٹسین ایک روسی ناول نگار ہے۔ اس کو روسی عوام کے دکھوں کا احساس ہوا اور اس نے اپنی کہانیوں میں تمثیلی روپ میں ظاہر کرنا شروع کیا۔ اس کے نتیجہ میں وہ روس کی اشتراکی حکومت کی نظر میں ناپسندیدہ شخص بن گیا۔ چنانچہ اس نے اپنا وطن چھوڑ کر امریکہ میں پناہ لی۔ وہ امریکہ کی ایک بستی ورمونٹ میں خاموشی کی زندگی گزارنے لگا، اور اپنے خیالات کتابوں کی صورت میں مرتب کرنے میں مصروف ہو گیا۔
مئی 1982ء میں سالزنیٹسین کو امریکی حکومت کا ایک دعوت نامہ ملا۔ اس کے اعزاز میں واشنگٹن کے وہائٹ ہاؤس میں ایک سرکاری تقریب کا اہتمام کیا گیا تھا، جس میں دوسرے معزز مہمانوں کے علاوہ خود امریکی صدر بھی شریک ہوئے۔ نیز اس دوران امریکی صدر ریگن اور سالز نیٹسین کے درمیان 15منٹ کی خصوصی ملاقات بھی شامل تھی۔
سالزنیٹسین نے صدر امریکہ کے نام 3مئی کو ایک جوابی خط لکھا جس کے ذریعے تقریب میں شرکت سے قطعی معذوری ظاہر کی۔ ان نے لکھا کہ زندگی کے جو مختصر لمحات میرے پاس رہ گئے ہیں وہ مجھے اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ میں رسمی ملاقاتوں میں اپنا وقت صرف کروں۔
سالز نیٹسین کے سامنے ایک محدود مقصد تھا یعنی روسی عوام کی دکھ بھری زندگی کو ناول کے انداز میں پیش کرنا۔ اس مقصد نے اس کے اوقات پر اتنا قبضہ کر لیا کہ اس کے لیے اس کے سوا چارہ نہ رہا کہ وہ صدر امریکہ کے دعوت نامہ کو رد کرے۔ آدمی کے سامنے اگر کوئی مقصد ہو تو اس کا یہی حال ہوتا ہے، مگر جب آدمی کی زندگی مقصد سے خالی ہو جائے تو اس کی نظر میں اپنے وقت کی کوئی قیمت نہیں رہتی۔
وہ اپنا اندازہ خوداپنی رائے سے کرنے کے بجائے دوسروں کی رائے سے کرنے لگتا ہے۔ وہ رسمی جلسوں اور تقریبات میں رونق کاسامان بنتارہتا ہے۔ وہ اپنے لیے جینے کے بجائے دوسروں کے لیے جینے لگتا ہے۔ یہاں تک کہ اس کی عمر پوری ہو جاتی ہے۔ بظاہر مصروفیتوں سے بھری ہوئی ایک زندگی اس طرح اپنے انجام کو پہنچتی ہے کہ اس کے پاس ایک خالی زندگی کے سوا اور کوئی سرمایہ نہیں ہوتا۔