بلاوجہ الجھ کر اپنا راستہ کھوٹا نہ کریں
چھوٹے جانوروں کو جب ندی پار کرنا ہو تو وہ پانی میں تیزی سے چل کر نکل جاتے ہیں ، مگر ہاتھی جب کسی ندی کو پار کرتا ہے تو وہ تیزی سے چلنے کے بجائے ہر قدم پر رُک رُک کر چلتاہے۔ وہ قدم نہایت احتیاط سے رکھتے ہوئے آگے بڑھتا ہے۔ اس فرق کی وجہ یہ ہے کہ چھوٹے جانوروں کے لیے کوئی خطرہ نہیں۔
پانی کے نیچے مٹی نرم ہو یا سخت، ان کا ہلکا پھلکا جسم باآسانی اس سے گزر جاتا ہے۔ مگر ہاتھی غیر معمولی طور پر بڑا جانور ہے۔بھاری جسم کی وجہ سے اس کے لیے یہ خطرہ ہے کہ نیچے کی مٹی اگر نرم ہو اوراس کا پاؤں اس میں دھنس جائے تو اس کے لیے نکلنا سخت مشکل ہو جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ ہاتھی جب تک یہ نہ دیکھ لے کہ نیچے سطح مضبوط ہے وہ آگے قدم نہیں بڑھاتا۔ ہر بار جب وہ قدم رکھتا ہے تو اس پر اپنا پورا بوجھ نہیں ڈالتا۔ وہ ہلکا قدم رکھ کر پہلے اس کی نرمی اور سختی کو آزماتا ہے۔ اور جب اندازہ کر لیتا ہے زمین سخت ہے تو اسی وقت اس پر اپنا پورا بوجھ رکھ کر آگے قدم بڑھاتا ہے۔
یہ طریقہ ہاتھی کو کس نے سکھایا۔ جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہاتھی کے اس طریق عمل کو خدائی تصدیق حاصل ہے۔ گویا زندگی کے لیے اللہ کا بتایا ہوا سبق یہ ہے کہ جب راستہ میں کسی خطرہ کا اندیشہ ہو تو اس طرح نہ چلا جائے جس طرح بے خطر راستہ پر چلا جاتا ہے بلکہ ہر قدم سنبھل سنبھل کر رکھا جائے۔ ’’زمین‘‘ کی قوت کا اندازہ کرتے ہوئے آگے بڑھا جائے ۔
انسان کو اللہ تعالیٰ نے ہاتھی سے زیادہ عقل دی ہے۔ جہاں بارود کے ذخیرے ہوں وہاں آدمی دیا سلائی نہیں جلاتا۔ جس ٹرین میں پیٹرول کے ڈبے لگے ہوئے ہوں، اس کا ڈرائیور بے احتیاطی کے ساتھ اس کی شنٹنگ (Shuntting) نہیں کرتا۔ مگر اسی اصول کو اکثر لوگ سماجی زندگی میں بھول جاتے ہیں۔ ہر سماج میں طرح طرح کے انسان ہوتے ہیں اور وہ طرح طرح کے حالات پیدا کرتے رہتے ہیں۔ سماج میں کہیں ’’دلدل‘‘ ہوتا ہے اور کہیں ’’پیٹرول‘‘ کہیں ’’کانٹا‘‘ ہوتا ہے اور کہیں ’’گڑھا‘‘۔ عقل مند وہ ہے جو اس قسم کے سماجی مواقع سے بچ کر نکل جائے نہ کہ ان سے الجھ کر اپنا راستہ کھو ٹا کرے۔
جس آدمی کے سامنے کوئی مقصد ہو وہ راستہ کی ناخوش گواریوں سے کبھی نہیں الجھے گا، کیونکہ وہ جانتا ہے کہ ان سے الجھنا اپنے آپ کو اپنے مقصد سے دور کر لینا ہے۔ بامقصد آدمی کی توجہ آگے کی طرف ہوتی ہے نہ کہ دائیں بائیں کی طرف۔ وہ مستقل نتائج پر نظر رکھتا ہے نہ کہ وقتی کارروائیوں پر۔ وہ حقیقت کی نسبت سے چیزوں کو دیکھتا ہے نہ کہ ذاتی خواہشات کی نسبت سے۔