جب تیرنا نہیں آتا تو کشتی مت چلا
ایک چوہے نے ایک اونٹ کی لگام ہاتھ میں لے کر بھاگنے کی کوشش کی۔ اونٹ نے یہ دیکھ کر اس بے وقوف کو ڈھیل دی اور اپنے بچے کو اس کے تابع کردیا۔ آگے آگے وہ چوہا چل رہاتھا ،پیچھے پیچھے یہ اونٹ تابعدار غلام کی طرح چل رہاتھا۔
یہاں تک کہ سامنے ایک دریا آ گیا ۔ اب تو چوہے کے اوسان خطا ہو گئے اور سوچنے لگا کہ اب تک تو میں نے ایسے عظیم القامت جسم کی رہبری کی اور مجھے یہ فخر تھا کہ ایک اونٹ میرے تابع ہے مگر اب آگے پانی میںرہبری کس طرح کروں؟ یہ سوچتے ہوئے چوہا وہیں کھڑا ہوگیا؟
اونٹ نے اس کی مصنوعی تعریف کرتے ہوئے کہا :اے میرے پہاڑ اور جنگل کے ساتھی! یہ رکنا کیسا! اور یہ حیرانی کیوں! دریا کے اندر مردانہ قدم رکھ دے۔
چوہے نے کہا : مجھے تو اس میں ڈوب جانے کا خوف ہے۔
اونٹ نے کہا کہ اچھا صبر کرو ‘ ذرا میں دیکھتا ہوں کہ پانی کس قدر ہے ،آیاتم ڈوب سکو گے یا نہیں۔ چنانچہ اونٹ نے ایک قدم دریا میں رکھ کر کہا: اے چوہے !اومیرے شیخ و رہبر! صرف گھٹنہ تک پانی ہے یہاں تورہبری کیجئے۔
چوہے نے جواب دیا کہ جناب! جہاں پانی تمہارے گھٹنے تک ہے وہاںپانی میرے سر سے بھی کئی گنا اونچاہوگا۔ ذرا دیکھو تو میرے اور تمہارے زانو میں کتنافرق ہے۔
اونٹ نے اس کی حماقت واضح کرتے ہوئے کہا کہ اب گستاخی نہ کرو‘ سیدھے سیدھے پانی میں آ کررہبری کرو‘ آپ کو میری رہبری پر بڑا ناز وفخر تھا۔ ارے احمق! میں نے تیرے پیچھے اقتداء کی تھی تاکہ تیری حماقت اور زیادہ ہو جائے۔
چوہے نے معذرت خواہانہ انداز میں کہا کہ پانی میں اترنا تو میری ہلاکت ہے۔ میری توبہ ہے،آپ معاف کر دیجئے، آئندہ آپ کا مقتدا اور شیخ بننے کا خیال بھی کبھی میرے دل میں نہ گذرے گا۔
اس نے مزید لجاجت سے کہا: میں نے اللہ کے لیے توبہ کی، میری جان اس خطرناک پانی سے چھڑا لیجئے۔
اونٹ کو چوہے کی توبہ اور ندامت پر رحم آیا اور اس نے کہا چلو اچھا میری کوہان پر بیٹھ جا اور دیکھ!تیرے جیسے سو اور چوہے بھی میری پیٹھ پر بیٹھ کر ایسے پانی سے بحفاظت گذر سکتے ہیں۔
اونٹ نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا کہ اگر تجھ کو خدانے سلطان اور بادشاہ نہیں بنایا تو رعایا بن کر رہ اور جب تجھے تیرنا نہیںآتی تو کشتی مت چلا۔
اگر تو پتھر کی طرح بے حس ہے یعنی خشیت و خوفِ آخرت سے محروم ہے تو جا کسی اہلِ دل (اللہ والے) سے تعلق قائم کر کہ اس کی صحبت سے تو موتی بن جائے گا۔
مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ اس واقعہ کے بعد نصیحت فرماتے ہیں کہ اللہ والے اپنے باطن میں بڑی دولت رکھتے ہیں ، ان کے سامنے ساتوں براعظموں کی سلطنت بھی ہیچ ہے،کیونکہ پوری کائنات کے خالق سے ان کے دل کا رابطہ قائم ہو چکا ہے۔ لہٰذا انہیں حقیر مت سمجھو اور اپنے روز و شب کو ان کے روز و شب پر قیاس مت کرو اور چوہے کی مانند اپنے دنیاوی ٹھاٹھ باٹھ یا علمی و عملی جاہ سے دھوکہ نہ کھاؤ۔
اگر تم کسی طرح بھی ان پربرتری کا احساس رکھو گے تو ہمیشہ ان کے فیض سے محروم اور ذلیل ہو گے۔ بالآخر انہی کی پیٹھ پر بیٹھ کر اللہ کا راستہ طے کرنا پڑے گا اور اسی چوہے کی طرح توبہ کرنی ہوگی ۔
اس لیے روز اول سے ہی اپنے دماغ سے فانی دنیا کی جاہ و عزت اورمال و دولت اور علمِ ظاہری اور بے روح عمل کا پندار نکال کر کسی اللہ والے سے نیاز مندانہ تعلق کر لو اور ان کی تعلیمات کے مطابق عمل کرو۔ اور ان سے اپنے نفس کی اصلاح کرا لو ۔ خوب یاد رکھو! چند دن کے بعد اس حقیقت سے تم خود آگاہ ہو جاؤ گے۔