جب وہ پہلی pregnancy میں تڑپ تڑپ کر مر گئی
یہ کہانی میری نوجوان بہن کی ہے جس کی اپنے تایا زاد بھائی سے شادی ہوئی، کہنے کو وہ تایا کے گھر گئی تھی مگر اس کا شوہر عجیب مزاج کا مالک شخص تھا جو ہر لمحہ غصے سے بھرا رہتا، یہ غصہ زیادہ تر بیوی پر ہی اترتا تھا، وہ ایسی لڑکی تھی کہ جسے ماں باپ کے گھر میں پیار ملا اور نہ ہی اسے سسرال میں سکون نصیب ہوا، وقت گزرتا رہا اور وہ حالات کے ساتھ سمجھوتہ کرتی رہی کیونکہ گاؤں دیہات میں اکثر لڑکیوں کو شادی کے بعد ایسے ہی حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ خدا نے کرم کیا کہ وہ چند ماہ بعد اُمید سے ہو گئی۔
وہ خوش تھی کہ بہت جلد اس کی گود بھرنے والی ہے وہ اپنی سہیلیوں کے سامنے اس بات کا اظہار بھی کرتی تھی کہ جب اس کا بچہ پیدا ہو گا تو سارے غم ختم ہو جائیں گے، مگر کسے خیال تھا کہ جو خواب وہ دیکھ رہی ہے وہ پورے ہونے والے نہیں ہیں۔
حمل کے پورے نو ماہ میں اسے کسی لیڈی ڈاکر کے پاس لے جا کر چیک نہیں کرایا گیا، جب اسے ’’درد زہ‘‘ (وہ درد جو حاملہ کو بچے کی پیدائش سے پہلے ہوتی ہے) شروع ہوا تو تب بھی کسی ڈاکٹر کے پاس لے جانے کی بجائے ’’دائی‘‘ کی خدمات حاصل کی گئیں، دائی نے اپنے سارے جتن اور ٹوٹکے آزمائے مگر اس کی تکلیف کم ہوئی نہ ہی بچے کی ولادت ہو سکی۔
دائی نے جب اپنے سارے حربے استعمال کر لئے تو اس نے صاف کہہ دیا کہ یہ کیس میرے بس کی بات نہیں ہے آپ اسے ہسپتال لے جائیں، دائی نے جب ہاتھ کھڑے کر دیئے تھے تو ہونا یہ چاہئے تھا کہ دائی کی بات مان لی جاتی مگر اسے کہا گیا کہ آپ ایک بار پھر کوشش کریں اس نے دوبارہ حربے استعمال کئے جس سے خاتون کی اذیت میں اضافہ ہو گیا اور کیس مزید خراب ہو گیا کیونکہ بچہ ولادت کیلئے تیار تھا لیکن داعی کے بس میں نہ تھا کہ وہ پیچیدہ ولادت کرا سکے۔ اس دوران حاملہ خاتوں پر کیا بیتی اس کا اندازہ لگانا بہت مشکل ہے۔
خاتون کی تکلیف کو دیکھتے ہوئے کچھ رشتہ داروں نے مشورہ دیا کہ ہسپتال لے جائیں، ہسپتال پہنچنے پر معلوم ہوا کہ بچے کی بروقت ولادت نہ ہونے کی وجہ سے بچہ ماں کے پیٹ میں ہی فوت ہو گیا ہے انہوں نے خاتون کا علاج کرنا چاہا مگر وہ بھی چند لمحوں کے بعد چل بسی۔ ڈاکٹروں نے ساری صورتحاک بتا دی کہ خاتون کی ڈلیوری نارمل انداز میں نہیں ہو سکتی تھی اسے آپریشن کی ضرورت تھی مگر بروقت طبی امداد نہ ملنے پر ماں اور بچہ دونوں موت کے منہ میں چلے گئے۔
خاتون مر گئی، اس کے ماں باپ، بہن بھائی کچھ عرصہ تک صدمے میں رہے لیکن شوہر کی زندگی پر اس کا کوئی اثر نہ ہوا اس نے ایک سال بعد کم عمر لڑکی سے شادی رچا لی۔ یہ محض ایک خاتون یا ایک گھر کی کہانی نہیں ہے، خواتین کی بڑی تعداد زچگی اور ڈیلیوری میں دشواری کی صورت مناسب علاج دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے موت کو اپنے گلے لگا لیتی ہیں، ایسی اموات کے کچھ لوگ ذمہ دار بھی ہوتے ہیں، ان کا کبھی ذکر نہیں کیا جاتا ہے یہ ہمارا سماجی المیہ ہے اہل دانش کو اس حوالے سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔
مذکورہ بالا واقعہ صدیوں پرانا نہیں ہے بلکہ آج سے محض 20 سال پہلے کی بات ہے جب بچے کی ولادت میں مشکل پیش آنے کی صورت میں آپریشن متعارف ہو چکے تھے لیکن گاؤں دیہات کے لوگ دائیوں کی خدمات پر ہی اکتفا کرتے تھے آج بھی کئی گھرانوں میں گاناکالوجسٹ کے پاس جانے کی بجائے دائی کے پاس جاتے ہیں تاکہ پیسوں کی بچت ہو سکے۔ یہ الگ بات ہے کہ بسا اوقات دائیوں کے خراب کئے ہوئے کیسز کے بعد ہسپتال جانا پڑتا ہے، جہاں جا کر معلوم ہوتا ہے کہ دو روپے کے فائدہ میں خاتون کی زندگی برباد کر دی گئی ہے اور کیس کو سدھارنے کیلئے کئی گنا زیادہ اخراجات کرنے پڑتے ہیں۔
بڑی بوڑھیاں طنزیہ کہتی ہیں کہ آج کل کی لڑکیاں نازک ہو گئی ہیں ہمارے زمانے میں تو دائیاں ہی بچے پیدا کراتی تھیں یہ درست ہے لیکن ہمیں سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جب دائی کے مقابلے میں آسان اور بہتر ڈیلیوری کی سہولت موجود ہے تو پھر دائی کے پاس کیوں جائیں، اگر جانا بھی ہے تو جو کیس آسان ہو اور الٹراساؤنڈ میں نارمل ڈیلیوری بتا دی گئی ہو تو دائی کے پاس جانے میں کوئی حرج نہیں ہے، لیکن جب معلوم ہو جائے کہ کیس پیچیدہ ہے تو گاناکالوجسٹ کے پاس جانا ہی بہتر ہے۔
پاکستان میں زچگی کے دوران خواتین کی شرح اموات کے مقابلے میں مغربی ممالک میں زچگی کے دوران خواتین کی شرح اموات بہت کم ہے، کیونکہ انہوں نے ان وجوہات کو جان کر اس کا تدارک کرنے کی کوشش کی ہے جن کی وجہ سے شرح اموات میں اضافہ ہو رہا تھا۔ زچگی کے دوران زچہ و بچہ کی زندگی محفوظ بنانے کیلئے ہم نے جو پیش رفت کی ہے وہ مغربی ممالک کی طب سے فائدہ اٹھایا ہے، یہ اچھی بات ہے مگر ابھی ہمیں بہت کچھ کرنا ہے تاکہ زچگی کے دوران زچہ و بچہ کی زندگیوں کو محفوظ بنایا جا سکے اور کسی کی بیٹی یا بہن تڑپ تڑپ کر موت کو گلے نہ لگائے۔