جنسی بے راہ روی رشتوں میں کمی کا باعث
ہمارے معاشرتی مسائل جن سے والدین اور لڑکیاں ذہنی کوفت اور اذیت کا شکار ہیں ان میں ایک تو رشتوں کا نہ ملنا، دوسرے مناسب رشتوں کا نہ ملنے کا مسئلہ ہے۔ بے شمار لڑکیاں نکاح کے انتظار میں زندگیاں گزار رہی ہیں اور اپنے ارمانوں کو یا تو دل میں دفن کر دیتی ہیں یا معاشرتی بے راہ روی کے اثرات سے متاثر ہو کر بے حیائی کا چلن اختیار کر لیتی ہیں۔
اگر ہم نے اس مسئلہ پر سنجیدگی سے توجہ نہ دی اور نکاح آسان تحریک کو عملی شکل نہ دی تو نتیجتاً معاشرے میں بے حیائی، بے غیرتی بڑھتی رہے گی اور غیرت کے نام پر جنازے نکلتے رہیں گے۔ یہ ہم سب کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ ہم اس مسئلہ کو حل کرنے میں کیا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ زیرِ نظر مضمون میں مناسب رشتہ نہ ملنے کی بعض وجوہات اور ساتھ ساتھ تدابیر بھی ذکر کی جا رہی ہیں ۔ اس کے مندرجات کو غور سے پڑھیں اور ان وجوہات اور کوتاہیوں کے ازالہ کی فکر کریں تاکہ رشتوں کی کمی کا مسئلہ حل ہو سکے۔
عورتوں کی کثرت
رشتوں کی کمی کی وجہ فطری امر ہے کیونکہ حدیث شریف کے مطابق قرب قیامت میں عورتوں کی کثرت ہو گی تو لازماً رشتوں کی کمی کا مسئلہ درپیش ہو گا۔ اس کا ایک ہی حل ہے کہ مردوں کے لیے ایک سے زائد نکاح کی ترغیب چلائی جائے جو مرد دوسرے نکاح کی استطاعت رکھتے ہوں ان کو آگے بڑھنا چاہیے۔ ایسے مرد معاشرتی دباؤ کو نظر انداز کر دیں۔
بہت سے مرد ایسے ہیں جو دوسرے نکاح کے خواہش مند ہیں لیکن معاشرے کے خوف اور بیوی کی روک کی وجہ سے نہیں کرتے۔ لہٰذا ایسے مرد بھی ہمت کریں اور بیوی بھی اسے انا کا مسئلہ نہ بنائے۔ نیز دوسرے نکاح میں لڑکی کو بھی ایسا رشتہ نہیں ٹھکرانا چاہیے کہ یہ مرد تو پہلے سے شادی شدہ ہے۔
ایک سے زائد نکاح ایک تو سنت نبوی ہے۔ نیز عورتوں کی کثرت کے پیش نظر ان کو نکاح میں لانے کے لیے مردوں کو ایک سے زائد نکاح کی طرف پیش قدمی کرنا ہوگی۔ ورنہ عورتوں کی کثیر تعداد رشتوں کی کمی کی وجہ سے بے نکاح ہی رہ جائے گی۔ البتہ نکاح ثانی کی دعوت ان مردوں سے جو خواہش کے ساتھ نکاح کی استطاعت، حقوق کی ادائیگی، نان و نفقہ کا انتظام کرسکتے ہوں اور پہلی بیوی کی حق تلفی میں مبتلا نہ ہوں۔
مناسب رشتوں کی کمی
رشتوں کی کمی کی وجہ توفطری ہے جو اوپر مذکور ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مناسب رشتوں کی بھی کمی ہوتی جا رہی ہے۔
مناسب تربیت کی کمی
مناسب رشتے نہ ملنے کی وجہ مناسب تربیت کی کمی ہے۔ والدین آج کل اپنی اولاد کی دینی تربیت کی طرف خاطر خواہ توجہ نہیں دے رہے ہیں۔ کہیں لڑکی دیندار ہے تو لڑکا آزادخیال ہے، کہیں لڑکا دیندار ہے تو لڑکی فیشن زدہ ہوتی ہے۔ نتیجتاً مناسب جوڑ کے باوجود رشتہ نہیں ہو پاتا۔اس کا حل یہی ہے کہ ایک تو والدین اولاد کی دینی تربیت کی طرف توجہ دیں۔
دوسرے اس اصول کو مدِنظررکھیں وہ یہ کہ ایک صاحب نے حضرت تھانوی رحمہ اللہ کواپنی بچی کے نکاح کی تاخیر کے سلسلہ میں لکھا کہ جس لڑکے کا انتخاب کرتا ہوں تو مالی حالت بہت کمزور اور جہاں مالی حالت اچھی ہوتی ہے تو لڑکا باشرع نہیں ہوتا۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے جواب کا مفہوم یہ تھا کہ نری داڑھی بھی تو کافی نہیں۔ داڑھی کے ساتھ گناہوں سے بچنا بھی تو ضروری ہے۔ لہٰذا کسی کی داڑھی نہیں لڑکا باصلاحیت، نماز کا پابند، روزہ کا پابند اور بزرگوں سے محبت کرنے والا ہے تو اسے قبول کر لیا جائے۔ ان شاء اللہ ان اعمال کے اہتمام کی وجہ سے اسے کسی وقت داڑھی کی بھی توفیق مل جائے گی۔
اسی طرح جو لڑکیاں باپردہ ہوتی ہیں بعض اوقات ان کا رشتہ ایسی جگہ طے پا جاتا ہے کہ وہاں شرعی پردہ کااہتمام نہیں ہوتا تو مذکورہ اصول کے مطابق وہاں انکار کرنے کی بجائے یہ دیکھ لیا جائے کہ اگر لڑکا اور اس کے گھر والے دیگر احکامات کے پابند ہیں تو محض پردہ نہ ہونے کی وجہ سے انکار نہ کیاجائے کیونکہ پہلے ہی رشتوں کی کمی ہے۔
بچی کوگھر بٹھائے رکھنے میں دوسرے گناہوں میں مبتلا ہونے کا خطرہ ہے۔ البتہ اس دیندار باپردہ لڑکی کی یہ ذمہ داری ہے کہ حکمت و بصیرت کے ساتھ تبلیغ و ترغیب اور اپنے اکابر کی تعلیمات سنا کر انہیں شرعی پردہ کی اہمیت سمجھائے اور دل سے دعائیں بھی کرتی رہے تو ان شاء اللہ وہاںبھی شرعی پردہ کی راہ ہموار ہو جائے گی۔ ورنہ اس کے پردہ پر اعتراضات یا رکاوٹیں تو نہیں کھڑی کریں گے۔
معاشرے میں پھیلی بے راہ روی
مناسب رشتہ نہ ملنے کی دوسرے بڑی وجہ معاشرہ میں پھیلی بے راہ روی ہے۔ بے دینی کی وجہ سے بے حیائی اور آزاد خیالی بھی فروغ پا رہی ہے۔ نکاح سے قبل لڑکے لڑکیوں میں دوستیوں اورتعلقات کا رواج بڑھتا جا رہا ہے۔ ان کا کردار و عمل معاشرہ میں مشکوک ہو جاتا ہے۔ ایسے خلاف شرع تعلقات کے نتیجہ میں کئی ناگفتہ بہ واقعات بھی رونما ہو جاتے ہیں۔
ایسے قابل اعتراض تعلقات کی وجہ سے باعزت نکاح میں رکاوٹیں اور رشتے ہوتے ہوتے ٹوٹ جاتے ہیں۔ والدین کے لیے بھی یہ صورت حال اذیت ناک بن جاتی ہے اور بالآخر خود لڑکے لڑکیوں کے لیے بھی ان کا ماضی پچھتاوے کا باعث بن جاتا ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ نکاح سے قبل لڑکے لڑکیاں پاکیزہ زندگی گزاریں۔ اور جوانی کے اوائل میں ہر قسم کے غلط تعلقات اور شہوانی آلائشوں سے خود کو پاک صاف رکھیں۔ ورنہ مناسب رشتوں کا قحط بڑھتا جائے گا اور خوشگوار ازدواجی زندگی بری طرح متاثر ہوگی۔