اندھے قتل میں ملوث بھتیجا خدا کی پکڑ میں

یہ واقعہ بنی اسرائیل کا ہے ۔ ان میں ایک شخص انتہائی مالدار تھا۔ اس کی نرینہ اولاد نہیں تھی۔ ایک غریب بھتیجے کے علاوہ اس کا کوئی وارث نہیں تھا۔ مالدار آدمی کی وفات کا وقت آن پہنچا۔ مگر اس کے بھتیجے کو لالچ آ گیا۔ اس نے مالدار چچا کو وقت سے پہلے ہی مار ڈالا تاکہ اس کی تمام دولت حاصل کر لے۔ قتل کرنے کے بعد اس نے چالاکی یہ کی کہ لاش ایک دوسری بستی میں لے جا کر کسی کے صحن میں پھینک دی تاکہ اُس پر کسی کو شک نہ ہو سکے۔

صبح ہوتے ہی وہ ڈرامائی انداز میں شور مچانے لگا اور خون کا بدلہ چاہیے، خون کا بدلہ چاہیے،کی دہائی دینے لگا۔ اس نے اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی خدمت میں پہنچ کر چند بے گناہ افراد پر مقدمہ بھی دائر کر دیا۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے اُن لوگوں سے باز پرس کی تو انہوں نے اپنی برأت کا اظہار کیا۔ اور ٹھوس دلیلوں سے ثابت کر دیا کہ ہم قتل کے اِس معاملے سے بالکل بے خبر ہیں۔ ہمارے اوپر قتل کاالزام سراسر ناانصافی اور ظلم ہے۔ ہم مکمل طور پربے گناہ ہیں۔

مقدمہ کی سماعت کے بعد سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے لیے فیصلہ کرنا دشوار ہو گیا۔ حاضرین نے تجویز پیش کی کہ آئیے اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ قاتل کا پردہ فاش کردے۔ موسیٰ علیہ السلام کو یہ تجویز پسند آئی۔ انہوں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان سنایا:
’’اللہ تعالیٰ تمہیں ایک گائے ذبح کرنے کا حکم دے رہاہے۔‘‘ (البقرہ)

بنی اسرائیل کہنے لگے: موسیٰ! آپ ہمارے مقدمے کی سماعت کے بعد ہمارا مذاق اُڑا رہے ہیں؟ یہ کیا بات ہوئی؟ ہم نے تو آپ سے مقتول کے قاتل کا پتہ لگانے کے بارے میں درخواست کی ہے اور آپ ہیں کہ ہمیں ایک گائے کے ذبح کرنے کا حکم صادر کر رہے ہیں ، بھلا قاتل اور مقتول کے قضیئے میں گائے ذبح کرنے کا سوال کہاں سے آ گیا؟
بنی اسرائیل بڑی عجیب و غریب قوم تھی۔ اللہ کے احکام کو نہ ماننا اور اس پر مختلف انداز میں طرح طرح کے اعتراضات لگانا ان کا عام وطیرہ تھا۔ انہوں نے اس حکم پر بھی اپنی پرانی عادت کے مطابق عمل کیا۔ وہ حکمت الٰہی سے بے خبر تھے۔انہیں اس بات کا شعور نہ تھا کہ انہیں یہ حکم دینے والا کوئی معمولی انسان نہیں بلکہ نبی نے انہیں یہ حکم ِالٰہی سنایا تھا۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے ان سے فرمایا:
’’میں ایسا جاہل بننے سے اللہ تعالیٰ کی پناہ پکڑتا ہوں۔‘‘(البقرہ)

مطلب یہ کہ میں ایک نبی ہوں، میری شان کے خلاف ہے کہ میںاپنے مومن بھائیوں کا مذاق اُڑاؤں ۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ تم میرے پاس ایک مقتول کا مقدمہ لے کر آئے ہو اور میں اس مقدمے کو حل کرنے کی بجائے تمہیں اپنے مذاق کا نشانہ بناؤں؟

بنی اسرائیل کو جب یقین ہو گیاکہ موسیٰ علیہ السلام جو حکم فرما رہے ہیں یہ ان کی طرف سے نہیں بلکہ منجانب اللہ ہے تو انہوں نے موسیٰ علیہ السلام سے کہا کہ چلیں ہم گائے تو ذبح کرتے ہیں مگر ذرا ہمیں یہ بھی بتلا دیںکہ وہ گائے کیسی ہونی چاہیے اور کن کن کمالات کی حامل ہونی چاہیے؟

بنی اسرائیل نے موسیٰ علیہ السلام سے گائے کی نوعیت دریافت کرکے خواہ مخواہ اپنے مقدمہ کو پیچیدہ بنا دیا۔ اگر وہ موسیٰ علیہ السلام کے حکم کے مطابق فوراً کوئی بھی گائے ذبح کر دیتے تو مقصد پورا ہو جاتا۔ لیکن انہوں نے گائے کی نوعیت کے بارے میں پے درپے سوال کرکے خود ہی مقدمے کو الجھا دیا۔ چنانچہ ان کایہ بے جا سوال اللہ تعالیٰ کو بھی پسند نہ آیا۔ اللہ تعالیٰ نے بھی ان کے مقدمہ کو پیچیدہ بنا کر انہیں مشکلات میں ڈال دیا۔

بنی اسرائیل ہی میں ایک آدمی تھا۔اس کا ایک بچہ تھا۔ جب اس کے مرنے کا وقت قریب آیا تو وہ اپنی ملکیت واحد گائے کے بچھڑے کو لے کرجنگل کی طرف گیا ۔ یہ بچھڑا اس کی محنت کی کمائی اور اس کی زندگی بھر کا سرمایہ تھا۔ جنگل میں پہنچ کر اس نے بچھڑے کو چھوڑ دیا اور کہا:
’’یا الٰہی!میں نے تیرے بھروسے پر گائے کے بچھڑے کو جنگل میں چھوڑ دیا‘ یہاں تک کہ میرا بچہ بڑا ہو جائے (اور اس گائے کا مالک بن جائے)۔‘‘

بچھڑا جنگل میں گھومنے پھرنے لگا۔ وہ نوخیز تھا ‘کسی بھی انسان کو دیکھتے ہی بھاگ کھڑا ہوتا۔ کچھ دنوں بعد اس شخص کا انتقال ہوگیا۔ وہ پسماندگان میں بیوی اور ایک چھوٹا سا بچہ چھوڑ گیا۔ باپ کے انتقال کے بعد بیٹے کی پرورش و پرداخت کی ذمہ داری ماں پر عائد ہوئی۔ ماںنے اپنی حیثیت کے مطابق پرورش و پرداخت کے تقاضے پورے کیے۔ وقت کے ساتھ ساتھ بچہ بھی نشونما پاتا گیا۔ ایک دن آیا کہ وہ جوانی کی دہلیز پرقدم رکھ چکا تھا۔ وہ ماں کا انتہائی وفادار ‘ فرمانبردار اور خدمت گزار تھا۔

اس نوجوان نے رات کو تین حصوں میں تقسیم کر رکھا تھا۔ ایک تہائی رات اللہ تعالیٰ کی عبادت میں گزارتا‘ ایک تہائی نیند سوتا اور ایک تہائی وقت اپنی ماں کی خدمت میں بسر کرتا۔ اس کا روزانہ کامعمول تھا کہ وہ صبح ہوتے ہی جنگل کی طرف روانہ ہو جاتا۔ جنگل میں لکڑیاں چنتا‘ انہیں پیٹھ پر لاد کربازار لے جا کر فروخت کرتا۔جو بھی آمدنی ہوتی اس میں سے ایک تہائی مال اللہ کی راہ میں صدقہ کر دیتا، ایک تہائی کھانے پینے میںخرچ کرتا اور ایک تہائی لا کر اپنی ماں کے ہاتھ پر رکھ دیتا۔

ماں نے ایک روز بیٹے سے کہا: تمہارے والد نے ورثہ میں ایک گائے چھوڑی ہے۔ وہ گائے فلاں جنگل میںہے۔ مرنے سے پہلے تمہارے والد نے اُسے اللہ کے بھروسے پر جنگل میںلے جا کر چھوڑ دیا تھا تاکہ جب تم بڑے ہو جاؤ تو اس کے مالک بن جاؤ۔ تم اُس جنگل میں جاؤ اور سیدنا ابراہیم علیہ السلام ‘ اسماعیل ‘ اسحق اور یعقوب علیہم السلام کے رب سے دعا کرو کہ وہ گائے تمہیں واپس کر دے۔ اور ہاں‘ اس کی نشانی یہ ہے کہ جب تمہاری نگاہ اس پر پڑے گی تو تمہیں یوں محسوس ہو گا کہ جیسے اس کی کھال سے سنہری شعائیں نکل رہی ہیں۔

نوجوان نے ماں کے حکم کی تعمیل کی اور اُس جنگل کی طرف چل پڑا جس کی ماں نے نشاندہی کی تھی۔ تلاش بسیار کے بعد اُسے گائے نظر آ گئی۔ اس نے آواز دی:
’’میں سیدنا ابراہیم ‘ اسماعیل ‘ اسحاق اور یعقوب علیہ السلام کے رب کا واستہ دے کر تجھے اپنے پاس بلاتا ہوں۔‘‘

یہ آواز سنتے ہی گائے نوجوان کی طرف دوڑ پڑی اور چند لمحے بعد وہ نوجوان کے سامنے کھڑی تھی۔ نوجوان نے اس کی گردن میں رسی ڈالی اور جنگل سے گھر کی طرف روانہ ہو گیا۔ اسی دوران اللہ تعالیٰ نے گائے کی زبان کھول دی اور وہ نوجوان سے مخاطب ہو کر بولی:
’’ماں کے ساتھ حسن سلوک کرنے والے نوجوان ! میرے اوپر سوار ہو جاؤ‘ اس طرح تمہیں آسانی ہو جائے گی۔‘‘

نوجوان گویا ہوا:
’’میری ماں نے مجھے تمہاری پیٹھ پر سواری کرنے کا حکم نہیں دیا ، اس نے اتنا ہی کہا ہے کہ گائے کو گردن سے پکڑ کر لانا۔‘‘

گائے بولی:
’’بنی اسرائیل کے رب کی قسم! اگر تم میرے اوپر سوار ہو جاتے تو مجھ پر ہر گز قابض نہیں ہو سکتے تھے۔ چلو، اب اگر تم پہاڑ کو بھی اپنے ساتھ چلنے کا حکم دو گے تو وہ بھی اپنی جڑ سے اُکھڑ کر تمہارے ساتھ چلنے لگے گا۔ یہ اپنی ماں کے ساتھ تمہارے حسن سلوک کا صلہ ہے۔‘‘

نوجوان گائے کو لے کر ماں کی خدمت میں حاضر ہو گیا۔ ماں نے بیٹے سے کہا:’’یہ تم بھی جانتے ہو کہ تمہارے پاس اس گائے کے سوا کوئی مال نہیں ہے، دن بھر مشقت کرکے لکڑیاںچنتے ہو اور رات کو اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مشغول رہتے ہو۔ جاؤ اور اس گائے کو بیچ آؤ تاکہ تمہاری مالی حالت کچھ مستحکم ہو جائے۔

بیٹے نے پوچھا: امی جان! میں گائے کی کیا قیمت لوں؟
ماں: تین دینار قیمت بتانا اور ہاں میرے مشورے کے بغیر مت بیچنا۔

نوجوان گائے کو لے کر بازار پہنچ گیا۔ وہ گاہک کا انتظا ر کررہا تھا۔ اسی دوران ایک فرشتہ انسانی شکل میں نمودار ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے فرشتے کو نوجوان کا امتحان لینے بھیجا تھا کہ دیکھیں وہ ماں کی فرمانبرداری میں پورا اُترتا ہے یا اپنے نفس کی بات پر جھک جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو سب معلوم تھا مگر وہ بندے کو آزمائش میں ڈال کر کھرے اور کھوٹے کی پہچان کرتا ہے۔ بندے کا امتحان لیتا ہے۔

فرشتے نے پوچھا: یہ گائے کتنی قیمت میں فروخت کرو گے؟
نوجوان : تین دینار میں ‘ بشرطیکہ اپنی ماں سے پوچھ لوں۔

فرشتہ : میں چھ دینار دے رہا ہوں ‘ ماں سے پوچھنے کی ضرورت نہیں۔ دینار لو اور گائے مجھے دے دو۔
نوجوان: ’’اگر تم مجھے اس گائے کے برابر سونا بھی دو گے تب بھی میں اپنی ماں سے مشورہ کیے بغیر تمہیں نہیں دوں گا۔‘‘

فرشتہ : تو پھر جاؤ اور اپنی ماں سے مشورہ کرنے کے بعد آجا ؤ۔
نوجوان بازار سے گھر کو روانہ ہوا۔ اس نے اپنی ماں کو وہ ساری باتیں کہہ سنائیں جو بازار میں سامنے آئی تھیں۔ گائے کی قیمت کے بارے میں بھی بتلایا۔ ماںنے کہا:
’’جاؤ گائے کی قیمت چھ دینار بتانا‘ مگر بیچنے سے پہلے مجھ سے پوچھ لینا۔‘‘

نوجوان گائے لے کر بازار پہنچا تو وہی فرشہ آدمی کی شکل میں دوبارہ اُس کے پاس آیا اور کہا: اپنی ماں سے مشورہ لے کر آ گئے؟ کیا کہا تمہاری ماں نے؟
نوجوان: ہاں‘ میں نے اپنی ماں سے مشورہ کر لیا ہے‘ اس نے چھ دینار میں فروخت کرنے کی ہامی تو بھر لی ہے ، البتہ فروخت کرنے سے پہلے اس نے مشورہ لینے کو کہا ہے۔
فرشتہ: میں تمہیں بارہ دینار دینے کو تیار ہوں مگر گائے مجھے ابھی چاہیے۔ پیسہ لو اور گائے دے دو۔ ماں سے پوچھنے کی ضرورت نہیں۔

نوجوان: نہیں ایسا ہر گز نہیں ہو سکتا، میں اپنی ماں سے پوچھے بغیر کسی قیمت پر گائے فروخت نہیں کر سکتا۔
نوجوان بازار سے واپس آ گیا اوراپنی ماں کی خدمت میں حاضر ہو کر بازار میں ہونے والی ساری باتیں کہہ سنائیں۔ ماں نے بیٹے کی باتیں سن کر فرمایا:
’’دراصل تمہارے پاس آنے والا شخص انسانی صورت میں فرشتہ ہے۔ وہ تمہیں آزمانا چاہتا ہے ۔ اب اگر وہ آئے تو اس سے پوچھنا کہ ہم اس گائے کو بیچیں یا نہیں؟‘‘

نوجوان نے ماں کے حکم کی تعمیل کی ۔ جب فرشتہ بازار میں اُس کے پاس گاہک بن کر آیا تو اس نے ماں کابتلایا ہوا سوال پوچھا۔ فرشتے نے کہا: اپنی ماںکے پاس جاؤ اور اس کوبتاؤ کہ وہ گائے کو ابھی اپنے پاس ہی رکھے۔ کیونکہ موسیٰ علیہ السلام کی خدمت میںایک مقتول کا مقدمہ دائر ہو گا ۔ وہ لوگ اُسے بھاری قیمت میں خریدیں گے۔ فرشتے کی تجویز کے مطابق وہ گائے فروخت نہیں کی گئی ۔ اللہ تعالیٰ ، بنی اسرائیل کے ذریعے اس گائے کو بھاری قیمت پر فروخت کرا کے مطیع و فرمانبردار بیٹے کو اچھا بدلہ دینا چاہتا تھا۔ چنانچہ ایسے ہوا۔ بنی اسرائیل نے اللہ کے نبی موسیٰ علیہ السلام سے گائے کی نوعیت کے بارے میں سوال کرکے اپنے اوپر خواہ مخواہ کا بوجھ ڈال لیا۔

اللہ تعالیٰ نے انہیں جس نوعیت کی گائے ذبح کرنے کا حکم دیا وہ پوری دنیامیں صرف ایک ہی آدمی کے پاس تھی۔ وہ آدمی یہی نوجوان تھا جس نے زندگی میں کبھی اپنی والدہ کی حکم عدولی نہیں کی تھی بلکہ اس کا تمام تر وقت ماں کی فرماں برداری ہی میں گزرتا تھا۔

سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے جب گائے کی نوعیت کے بارے میں بنی اسرائیل کو بتلایا تو انہوں نے کافی تگ و دو اور تلاش و بسیار کے بعد نوجوان کے پاس مطلوبہ گائے کو پا لیا۔ قیمت یہ مقرر ہوئی کہ گائے کے وزن کے برابر دینار گائے کے مالک کو دیے جائیں گے، چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ جب گائے سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی خدمت میں لائی گئی تو آپ نے اللہ تعالیٰ کے فیصلے کے مطابق گائے کا گوشت کاٹ کر اسے مقتول کے جسم پر مارنے کا حکم دیا۔

گوشت کو مقتول کے جسم پر مارنا تھا کہ وہ اللہ کے اِذن سے زندہ ہو گیا۔ اس کے جسم سے خون ٹپک رہا تھا۔ اُس نے بتلایا کہ مجھے میرے بھتیجے نے قتل کیا ہے۔ پھر وہ اسی جگہ گر کر مر گیا۔ چنانچہ قاتل پکڑا گیا اور اسے وراثت سے محروم کر دیا گیا۔

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button