سعودی تعلیمی نصاب میں شامل جنگجو خاتون
قصہ قریب دو سو برس پرانا ہے، جب آج کا سعودی عرب اپنی ریاستی تشکیل میں تین مزاحمتی ادوار سے گذرا تھا، جب سعودی ریاست اپنے پہلے دور کے مزاحمتی عمل میں تھی۔ سعودی ریاست کی تشکیل میں جہاں بہت سارے جواں مردوں کی داستانیں ہیں وہی پر تاریخ ساز شخصیت غالیہ البقیمی کا ذکر آج کے سعودی عرب کی نئی نسل کے لئے فخر وناز کا باعث ہے۔
غالیہ البقیمی کی شجاعت اور تاریخی معرکوں کو خود عثمانی سلطنت اور انگریز مورخوں نے تسلیم کیا تھا۔ سعودی عرب اپنی نئی نسل کو اپنے وطن سے محبت اور اس کے سپوتوں سے متعارف کروانے کے لئے سعودی وزارت تعلیم نصابی تاریخ کو از سرنو ترتیب دے رہا ہے ، اس لئے پہلی بار تعلیمی تناظر کے سماجی علوم میں ایک خاتون غالیہ البقیمی کو بطور ہیرو پرائمری جماعتوں کے نصاب میں شامل کی گیا ہے، جو دو سال پہلے سنہ ھجری ۱۴۴۱ (سنہء 2019) میں باقاعدہ اسکول کے نصاب کا حصہ بن چکا ہے۔
نصاب میں غالیہ البقیمی کی تاریخی معرکے کی تفصیلات بھی شامل کی گئی ہیں۔ اور نصابی کتاب کے ایک صفحے کے عکس میں معرکہ کے نتائج اور غالیہ البقمی کی قیادت میں معرکے کا تخلیاتی منظر بھی دکھایا ہے۔ اپنی تاریخ، وطن اور روایات کی محافظ بننے والی اور اپنے ملک سے محبت اور دفاع کے لیے بلند عزم رکھنے والی غالیہ البقیمی جنہیں تاریخ میں غالیہ الوہابیہ کے نام سے بھی شہرت ملی، کون تھیں۔
غالیہ بنت عبدالرحمٰن البقیمی :غالیہ بنت عبدالرحمٰن بن سلطان بن الغرابیت الرمیطانی البدری الوازی البقمیی کی پیدائش کا سن تاریخ میں نہیں ملتا، غالب امکان ہے کہ ولادت بارہویں صدی ہجری کی آخری چوتھائی میں ہوئی تھی اور وفات سنہء 1818 ہے، غالیہ البقیمی حجاز اور نجد کی سرحدوں پر رہنے والے "البقوم” قبیلے سے ہیں، جو جزیرہ نما عرب کے قدیم ترین قبائل میں سے ایک ہے، سلسلہ نسب کے لحاظ سے مغربی عرب سے تعلق رکھنے والی غالیہ البقیمی، حماد بن عبداللہ بن محی (البقوم قبیلہ کے امیر) کی اہلیہ تھیں۔
تربہ شہر "Turabah City” نجد کے قریب اور غالیہ کی پیدائش مکہ شہر کے قریب طائف کی تھی۔ یہ سنہ ھجری ۱۲۲۸ (سنہء 1806) میں جب ترک محمد علی پاشا کے بیٹے توسون نے حجاز اور نجد کے درمیان عثمانی کمانڈر عثمان بیک کی قیادت میں ایک لشکر نے تربہ شہر پر چڑھائی کی تھی، عثمانیوں کا مقصد پہلی سعودی ریاست کو ختم کرنا تھا، اس وقت غالیہ البقیمی کے شوہر حماد بن محیی تربہ کے امیر اور لشکر کے قائد تھے۔ غالیہ البقیمی نے اس وقت نہ صرف اپنے ہم وطن مردوں کو پامردی سے مقابلہ کرنے پر اکسایا بلکہ لشکر کی ہر طرح سے مدد کی۔ شہر کی خواتین کو بھی جمع کیا ۔ وہ زخمی ہونے والوں کی تیمار داری کرتیں، ان کے لئے کھانا پکاتیں اور اسلحہ فراہم کرتیں رہیں۔
غالیہ البقیمی کی بہادری کے بارے میں مورخین کے بہت سے اختلافات بھی ہیں، لیکن ان کا مجموعی بیانیہ عثمانی ترک افواج پر غالیہ البقیمی کی جنگی حکمت عملی کے نتائج کی فتوحات ہیں، جسے عثمانی بھی تسلیم کرتے ہیں، اور اس سے کسی کو اختلاف نہیں تھا۔ سنہ ھجری ۱۲۲۸ میں محمد علی پاشا کے بیٹے توسون نے تربہ شہر پر چڑھائی کی، اس وقت غالیہ البقیمی کا شوہر حماد ابن محی زخمی ہوگیا تھا اور غالیہ البقیمی نے ہی اس جنگ کی منصوبہ بندی کی تھی۔
قبیلہ البقوم نے غالیہ البقیمی کی سرکردگی میں جنگ لڑی، توسن اور اس کے ساتھیوں کو شکست دی اور فتح حاصل ہوئی، عثمانی لشکر کے تمام حملہ اور سپاہیوں کو ہلاک کر دیا۔ اگلے برس سنہ ھجری ۱۲۲۹ میں مصطفیٰ بے اور توسن پاشا ایک بار پھر نئی سپاہ کے ساتھ واپس آئے اور تربہ پر حملہ کیا، اس وقت غالیہ البقیمی کا شوہر حماد بن محی دوسری جنگ کے آغاز میں ہی سنہء ھجری ۱۲۲۹ میں فوت ہو چکا تھا۔
کچھ مورخین کے مطابق معرکے کے دوران حماد بن محی مرگئے، لیکن غالیہ البقیمی نے شوہر کے مرنے کی خبر لشکر سے چھپائے رکھی تاکہ لوگوں کے حوصلے پست نہ ہوں، غالیہ البقیمی نے البقوم کے رہنماؤں اور جنگی حکمت عملی کے منصوبوں کو جاری رکھا، لشکرکی قیادت سنبھال لی اور عثمانی حملہ آوروں کا مقابلہ کیا یہاں تک انہیں پسپا ہونے پر مجبور کردیا۔ نتیجتاً توسن مصطفی بیک اور ان کے آدمیوں کو شکست ہوئی، یہ جنگ تین دن تک جاری رہی۔عثمانی کمانڈر مصطفی بیک کی شکست کے بعد عثمانیوں نے غالیہ البقمیہ کو ساحرہ ’’جادوگر خاتون‘‘ کے نام سے یاد رکھا۔
عرب مورخ ڈاکٹر دلال الحربی Dr. Dalal Al Harbi نے اپنی کتاب”مشہور خواتین” Famous womens میں ذکر کیا ہے کہ غالیہ البقوم بے مثال بہادری کے ساتھ میدان میں کھڑی تھی، اور اپنی فوج کے ساتھ مصطفےٰ بیک کی افواج کے آرٹلری ڈویژن پر حملہ کیا اور اسے بھاگنے پر مجبور کیا۔ نتیجتاً، مصطفیٰ بیک تربہ شہر سے پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوا گیا حتی کہ اپنی توپیں اور گولہ بارود چھوڑ گئے جو سعودیوں نے لوٹ لیا تھا، جبکہ عثمانیوں نے اسے ایک "دلکش ساحرہ عورت” کے طور پر اس جنگ سے منسوب کیا۔
سوئس سیاح اور مؤرخ Swiss Traveler & Historian جوہان لڈوِگ برخارٹ John Ludwig Burckhardt نے اپنی کتاب "Notes on the Bedouins and the Wahhabis (نوٹس آن دی بیڈوئنز اینڈ دی وہابیز) میں غالیہ البقیمی کے حوالے سے لکھا ہے کہ عمیں سے اک قبیلہ البقوم جو چرواہے اور کچھ کسان تھے، جن کی سربراہی غالیہ البقیمی نامی ایک بیوہ نے اپنے شوہر کے مرنے کے بعد کی پاس تھی، یہ سرزمین ان کے بزرگوں کی تھی، اور غالیہ البقیمی کسی بھی عرب خاندان سے زیادہ دولت کی مالک تھی۔
پڑوس میں اس نے اپنے قبیلے کے تمام ان لوگوں پر پیسہ اور رزق بہا دیا جو ترکوں سے لڑنے کے لیے تیار تھے۔ اس جنگ سےغالیہ کا نام پورے ملک میں پھیل گیا تھا، تربہ کے قریب مصطفیٰ بیک کو ہونے والی پہلی شکست کے بعد عثمانی ترک سپاہیوں کے دلوں میں دہشت ڈالی، ترکوں کے خلاف غالیہ البقیمی سے پیدا ہونے والے خوف کو اس خطے میں بہت تقویت ملی۔
عثمانیوں کو اس شکست کے بعد غالیہ البقیمی کے ساتھ کیا ہوا اس کے بارے میں مورخین کا اختلاف ہے، ان میں سے بعض کا کہنا ہے کہ اپنے آبائی شہر تربہ واپس آگئی اور تربہ میں طائف کی سڑک پر واقع اپنے محل میں رہائش اختیار کی، کچھ کے مطابق وہ الدرعیہ آ گئی اور وہیں ٹھہری، اور اس کا قافلہ اٹھائیس اونٹوں پر سوار تھا، جس میں سامان، سونا اور چاندی لدے ہوئے تھے۔ بعض مورخین بتاتے ہیں کہ وہ محمد علی پاشا کی مہم کے دوران ’’تربہ‘‘ شہر پر ادھیڑ عمر کی تھیں۔
سعودی عرب نے اپنی تاریخ کی اب از سر نو ترتیب دے رہا ہے اسی لئے ان کے ماہرین کا کہنا ہے کہ نصابی کتابوں میں بہادر خاتون غالیہ البقمیہ کا تذکرہ انتہائی سود مند ثابت ہوگا۔ سعودی عرب کے اسکولوں میں ۵۵ فیصد طالبات ہیں جن کے لئے غالیہ البقیمی کے واقعے میں نہ صرف کئی اسباق ہیں بلکہ یہ ان کے معاشرے کا بھی حصہ ہے، اور ان کے شاندار ماضی کا ایک سنہرا باب ہے ۔