معاملہ کو حالات پر چھوڑ کر نتائج قبول کریں
مشہور صنعت کار جی ڈی برلاآزادی کی تحریک میں سرگرمی کے ساتھ شریک تھے۔ انہوں نے انڈین نیشنل کانگریس کو مجموعی طور پر ایک کروڑ سے زیادہ رقم دی۔ وہ مہاتما گاندھی کے قریبی ساتھیوں میں سے تھے۔
1947ء سے پہلے برلا ہاؤس (دہلی) کانگریسی لیڈروں کا مستقل مرکز بنا ہوا تھا۔ 15اگست 1947ء کو ساڑھے دس بجے وائسرائے کی تقریر آنے والی تھی جس میں انہیں آزادی ہند کے بارے میں اپنا آخری سرکاری اعلان نشر کرنا تھا۔
تمام بڑے بڑے کانگریسی لیڈربرلا ہاؤس میں بیٹھے ہوئے گھڑی کی سوئی دیکھ رہے تھے کہ کب ساڑھے دس بجیں اور وہ ریڈیو پروائسرائے کی تقریر سنیں۔ جی ڈی برلا بھی ان لیڈروں کے ساتھ وہاں موجود تھے۔ برلا کی عادت تھی کہ وہ ٹھیک آٹھ بجے سونے کے کمرہ میں چلے جاتے تھے۔ جیسے ہی ان کی گھڑی نے آٹھ بجائے وہ مجلس سے اُٹھ گئے۔ انہوں نے کہا: اب تومیرا سونے کا وقت ہو گیا۔ وائسرائے کی تقریر صبح اخبار میں پڑھ لوں گا۔
یہی کامیاب زندگی گزارنے کا صحیح طریقہ ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ ’’مسئلہ‘‘ اور ’’مقصد‘‘ میں فرق رکھے۔ وہ مسئلہ کی رعایتیں صرف اس وقت تک کرے جب تک اس کا مقصد سے ٹکراؤ پیش ہو۔ جب مقصد اور مسئلہ میں ٹکراؤ ہو جائے تو وہ مسئلہ کو حالات کے حوالے کرکے مقصد کی طرف چلا جائے۔ بیشتر لوگ مسائل میں پریشان رہتے ہیں۔ اس کے نتیجہ میں وہ ذہنی سکون کھو دیتے ہیں۔
اعلیٰ مشاغل میں وہ اپنا وقت نہیں دے پاتے۔ یہاں تک کہ ایک روز افسردگی کے ساتھ مر جاتے ہیں۔ مگر یہ عقل مندی کی بات نہیں۔ مسائل کو حل کرنے میں اپنی قوت صرف کیجئے، مگر اس کی ایک حد رکھیئے۔ حد آتے ہی مسائل کو چھوڑ کر مقصد کو پکڑ لیجئے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ مسائل کے حل کے سلسلہ میں زیادہ فیصلہ کن چیز حالات ہیں۔ آدمی خواہ کتنا ہی زیادہ پریشان ہو،آخر کار وہی ہوتاہے جو حالات کا تقاضا ہو۔ اس لیے بہترین عقل مندی یہ ہے کہ ایک حد تک مسائل پر ذہن لگانے کے بعد ان کوحالات کے اوپر چھوڑ دیا جائے۔ گھڑی میں آٹھ بجنے تک مسئلہ پر توجہ دیجئے۔ آٹھ بجنے کے بعد مسئلہ کو حالات کے حوالے کرکے سونے کے لیے چلے جائیے۔ اس کے بعد اس پر راضی ہو جائیے کہ حالات کاجو فیصلہ بھی ہو وہ مجھے منظور ہے۔