والدین کی دلجوئی کے اہم مواقع
والدین کے ساتھ حسنِ سلوک خاص طور پر جب والدین بوڑھے ہو جائیں تو ان کی عزت و احترام اور ان کے احکام کے احترام کا تقاضا یہ ہے کہ اولاد ان کے سامنے جھک جائے اور ان کی فرمائش پوری کرے۔
حقوق والدین تو کبھی پورے ہو ہی نہیں سکتے، البتہ بعض ایسے طریقے ضرور ہیں جن پر عمل کرکے آپ ان کی رضا حاصل کر سکتے ہیں۔ ان کو خوش کر سکتے ہیں۔ مثلاً مختلف مواقع، جیسے عید الفطر، عیدا لاضحی یا رمضان المبارک کے آغاز پر، ان کی خوشیوں کا خیال رکھا جائے۔ بیٹے یا بیٹی، پوتی، بہن یا بھائی کی شادی کے موقع پر ان سے پوچھیں کہ اس موقع پر ان کا مشورہ، رائے اور خواہشات کیا ہیں۔ آپ شادی کے اس موقع پر کون سا لباس پسند کریں گے۔ ان سے مشورہ کریں کہ شادی شدہ نئے جوڑے کو کیا چیز تحفے کے طور پر دی جائے۔ اگر آپ کسی دوسرے شہر میں ہیں تو یہ باتیں فون، سکائپ کے ذریعے بھی ہو سکتی ہیں۔
والدین کو محسوس کرائیں کہ وہ ہر معاملے اور مشورے میں شریک ہیں۔ مثلاً : گرمی کا موسم آر ہاہے یا سردی کا موسم شروع ہونے والا ہے۔ آپ والدہ صاحبہ سے یا والد صاحب سے کہیں کہ چلیں بازار چلتے ہیں، وہاں سے آپ کی مرضی کے کپڑے خریدتے ہیں۔ اگر وہ کسی وجہ سے جانے پر راضی نہ ہوں تو ان کی پسند اور مرضی کے مطابق کپڑے خرید کر پیش کر دیں۔ اس طرح آپ دیکھیں گے کہ ان کو کتنی خوشی ہوتی ہے اور ان کے دل سے آپ کے لیے کتنی دعائیں نکلتی ہیں۔
اس موقع کی مناسبت سے آپ ان کو سرپرائز بھی دیں۔ اچانک ان کے سامنے ان کی پسند یا ضرورت کی چیز رکھ دیں۔ نہایت ادب و احترام سے بتائیں کہ اماں جان یا ابا جان! میں بازار میں تھا، آپ کی ضرورت اور پسند کی چیزیں میرے دل کو بھا گئیں، اس لیے میں نے آپ کے لیے خریدلیں، انہیں قبول فرمائیں۔ اس قسم کے کاموں سے والدین کو بے حد خوشی ہوتی ہے۔
اگرآپ سفر کے لیے روانہ ہو رہے ہوں تو کوشش کریں کہ سب سے آخر میں جنہیں الوداع کہیں وہ آپ کے والدین ہوں اور آپ کی آنکھوں نے سب سے آخر میں ان کا دیدار کیا ہو۔ روانگی سے پہلے ان کے پاس بیٹھ جائیں، ان کو بتائیں کہ میں سفر پر جا رہا ہوں۔ میرے لیے دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ مجھے کامیاب کر ے۔ سفر کی مشکلات سے محفوظ رکھ۔ راستہ میں کوئی تکلیف نہ ہو۔
آپ والدین کے چہرے ہی سے محسوس کر لیں گے کہ وہ آپ کی ان ننھی منھی دلنواز باتوں سے کتنے خوش ہیں اور پھر یقینا ان کی قبول ہونے والی دعاؤں کے بھی آپ حقدار بن جائیں گے، ان شاء اللہ۔ اسی طرح جب آپ سفر سے واپس آئیں تو ممکن صورت میں سب سے پہلے والدین کے پاس جائیں ۔ بعض اوقات ہم سوچتے ہیں کہ ملاقات کے لیے مناسب وقت کا انتظار کریں۔ اگر ان کی صحت اجازت دیتی ہو اور وہ سو نہ رہے ہوں تو پھر فوراً ان کی قدم بوسی کے لیے حاضر ہو جائیں۔ ان کے پاس بیٹھیں، ان کے حالات، ان کی صحت اور دیگر امور کے بارے میں پورے اطمینان اور احترام سے ان کی باتیں سنیں۔ انہیں اپنے سفر کے حالات بتائیں۔ اگر اس سفر میں کوئی نمایاں کامیابی ہوئی ہو تو انہیں یہ خوشخبری ضرور سنائیں۔
دورانِ سفر کوشش کریں کہ روزانہ ایک مرتبہ اُن سے بات ہوجائے۔ یہ دورانیہ چاہے چند منٹ کا ہی ہو۔ کیونکہ ان کی مامتا کو آپ کی آواز سن کر ہی قرار ملے گا۔ آپ کو فون کرنا ان کے لیے کتنی ناقابل بیان مسرت کا سبب بنے گا؟ شاید آپ اس کا تصور بھی نہ کر سکتے ہوں۔
سفر کے علاوہ اگرآپ اُس شہر میں مقیم نہ ہوں جہاں آپ کے والدین کا گھر ہے تو اس صورت میں آپ لازماً فون پر ان کی خیریت دریافت کرتے رہا کریں۔ انہیں اپنے حالات و واقعات کی خبر کرتے رہا کریں۔ اگر آپ اسی شہر میں مقیم ہیں جہاں والدین کا گھر ہے اور کسی وجہ سے وہ آپ کے ساتھ نہیں رہتے تو اس صورت میں کوشش کریں کہ روزانہ ان کی زیارت کے لیے جائیں۔ ممکن ہو تو ان کے ساتھ ایک وقت کا کھانا کھائیں۔ چائے نوش کریں ۔ ان کے ساتھ دل کو خوش کرنے والی باتیں کریں۔ ان کا دل بہلائیں اور ان سے دعائیں لیں۔ والدہ صاحبہ سے ملاقات کے دوران ان کے ہاتھ اور ماتھے پر بوسہ دیں۔
جن لوگوں نے اپنے والدین کی عزت و توقیر کی، ان کے ہاتھوں اور پاؤں کو چوما، ان کی اولاد بھی اپنے والدین کی عزت و توقیر کرتی ہے۔
اپنے والدین کی ضروریات خود اپنے ہاتھوں سے پوری کریں ۔ مثلاً صفائی سے ان کے بستر لگا دیں، ان کے جوتے پالش کرکے تیار رکھیں ، ان کے کپڑے استری کر کے الماری میں لٹکائیں۔ ممکن ہے گھر میں نوکرانی ہو یا آپ کی بیٹی یا بیوی یہ خدمت انجام دے مگر والدین کے یہ ذاتی کام کر کے جو مزہ آپ کو ملے گا، وہ دوسرے کے ہاتھوں سے آپ کو کبھی میسر نہیں آئے گا۔ اس طرح آپ دیکھیں گے کہ آ پ اپنے والدین کے کس حد تک قریب ہوتے ہیں۔ ان کی چیزوں کو وقت پر ترتیب دیں۔
اگر اُن سے وعدہ کیا ہے کہ میں فلاں وقت آؤں گا تو اُسے ہر حالت میں پورا کرنے کی کوشش کریں۔ اگر کوئی مجبوری پیش آ جائے تو لازماً اُن کو اطلاع کریں۔ زندگی میں آپ کو یقینا بہت ساری کامیابیاں ملتی ہیں۔ آپ اُس ترقی اور کامیابی کو ہمیشہ اپنے والدین سے منسوب کریں کہ اُن کی دعاؤں سے ان کی اعلیٰ تربیت کے نتیجہ میں مجھے یہ کامیابی ملی ہے۔ والدین کو ان باتوں سے بڑی خوشی اور فخر کا احساس ہوتا ہے کہ وہ اپنے بچے کی تربیت کے نتائج اپنی زندگی میں دیکھ رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اولاد کی تمام تر کامیابیاں، والدین ہی کی کامیابی ہوتی ہے۔
اپنی کامیابی اور ترقی کی اطلاع سب سے پہلے اپنے والدین کو دیں۔ اپنے راز کی باتیں اُن کو بتائیں، اُ ن کو اس میں شریک کریں۔ اس سے اُن کو عجیب فرحت اور خوشی ملے گی۔ آپ اُن کے دل کے قریب ہو جائیں گے، اُن کو احساس ہو گا کہ ہمارا بیٹا اس عمر میں بھی ہمارا تابع فرماں ہے۔ بوڑھے والدین کے علاج معالجے، ان کے لیے مطلوبہ آلات اور ادویات مہیا کرنا اپنی اولین ذمہ داری سمجھیں۔
اگر اُن کو بلڈ پریشر یا شوگر کا مرض لاحق ہے تو اچھے ڈاکٹر سے مناسب وقت پر چیک اپ کرواتے رہا کریں۔ اگر مالی وسائل اجازت دیں تو بلڈ پریشر اور شوگر کے لیے بازار سے مشینیں دستیاب ہیں، ان کو خرید کر گھر میں رکھیں۔ آپ خود ان کے استعمال کا طریقہ سیکھیں۔ ذراتصور کریں آپ صبح یا شام اپنے والدین میں سے کسی کا ہاتھ پکڑ کر کہتے ہیں اماں جان، ابا جان میں آپ کا بلڈ پریشر چیک کرنا چاہتا ہوں، خاصے دن گزر گئے ہیں، آپ کی شوگر چیک نہیں کی۔ لائیے میں آپ کی شوگر چیک کروں۔ یہ چند منٹوں کا کام ہے مگر اس سے والدین کے دل و دماغ میں آپ کے لیے محبت و پیار کے زمزمے بہہ اُٹھیں گے۔
کہتے ہیں کہ بڑھاپا خود ایک بیماری ہے۔ آپ والدین کے ماہانہ چیک اپ کا بندوبست کریں۔ ڈاکٹر سے ان کے لیے وقت حاصل کریں۔ اُن کا ہر دو تین ماہ بعد میڈیکل چیک اپ کروائیں۔ اس سے آپ کو بھی اور آپ کے والدین کو بھی صحت کے حوالے سے اطمینان رہے گا۔
فرض کیجئے والدین کی رپورٹ مثبت آتی ہے تو اس پر اللہ تعالیٰ کا شکریہ ادا کرنے کے ساتھ ساتھ ان کو اپنی خوشی میں شریک کیجئے۔
انہیں بتائیے کہ الحمد للہ! آپ بالکل ٹھیک ہیں۔ آپ کی رپورٹ بالکل مثبت اور اطمینان بخش ہے۔ آپ کو اللہ کے فضل سے کوئی بیماری نہیں ہے۔ آپ بالکل تندرست ہیں۔ اگر خدا نخواستہ ان کی بیماری خطرناک ہے تو پھر ان کو ہر چیز بتانے کی ضرورت نہیں۔ صبح و شام ان پر آیات اور مسنون اذکار پڑھ کر دم کریں۔ جس مقام پر درد ہے یا کوئی تکلیف ہے، اس جگہ ہلکی ہلکی مالش کریں، سورۂ فاتحہ پڑھ کر دم کریں، ان شاء اللہ ان کو راحت ملے گی۔
انہیں تسلی دیں کہ پریشانی کی کوئی بات نہیں، آپ ان شاء اللہ جلد صحت یاب ہو جائیں گے۔ ان کوایسے واقعات نہ سنائیں جن سے ان کی پریشانی میں اضافہ ہو۔ مثلاً ان سے یہ کہنا قطعاً نامناسب ہے کہ اس بیماری میں ہمارا فلاں رشتہ دار یا دوست وفات پا گیا تھا۔ بلکہ ان کو حوصلہ دیں کہ اسی کا نام تو زندگی ہے۔ یہاں بیماری اور تندرستی ہر وقت ساتھ لگی رہتی ہے۔ یہ جو آپ پر بیماری آئی ہے ان شاء اللہ یہ آپ کے گناہوں کا کفارہ ہے ۔ بس چند دنوں کی بات ہے آپ بالکل ٹھیک ہو جائیں گے۔