نئی بہو سے متعلق تلخ سماجی رویے
بہو کے جلد حاملہ نہ ہونے کی صورت میں اسے سسرال والوں کی شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے
اپنی پسند کی بہو تلاش کر کے بڑے ارمانوں سے شادی کی جاتی ہے، چند روز تک بہو کے ناز نخرے بھی اٹھائے جاتے ہیں تاہم یونہی چند ماہ گزرتے ہیں سسرال والے پوچھنا شروع کر دیتے ہیں کہ ’’خوشخبری‘‘ ہے؟ نئی نویلی بہو اس کی طرح کی باتیں سن کر شرما جاتی ہے کیونکہ ہمارے ہاں اکثر کم عمر لڑکیوں کی شادی کر دی جاتی ہے جو ذہنی طور پر جلد ماں بننے کیلئے تیار نہیں ہوتی ہیں۔
بہو کے جلد اُمید سے نہ ہونے کی صورت میں اسے ڈاکٹر سے رجوع کرنے کیلئے کہا جاتا ہے۔ پڑھی لکھی اور بڑے گھرانوں کے لڑکیاں تو اس طرح کی باتیں خاطر میں نہیں لاتی ہیں، البتہ کم تعلیم یافتہ، غریب گھرانوں یا دیہی علاقوں کی لڑکیاں سسرال کے دباؤ میں آ جاتی ہیں اور لڑکے کی ماں یا بہنیں جو کہتی ہیں چپ چاپ اسے مانتی چلی جاتی ہیں۔
یہ جانتے ہوئے بھی کہ طبی ماہرین کم عمری کی شادی کو نقصان دہ قرار دیتے ہیں اور زچگی کے دوران اکثر ماؤں کی ہلاکت کی وجہ کم عمری کی شادی ہوتی ہے اس کے باوجود ہر والدین کم عمر بہو کی تلاش میں ہوتے ہیں لیکن جب انہیں اپنے معیار کی بہو مل جاتی ہے تو پھر اسے اتنا وقت دینے کیلئے تیار نہیں ہوتے ہیں جس سے اس کی جسمانی ساخت پوری ہو جائے۔
قدیم دور میں جب شادی کے بعد کوئی لڑکی حاملہ نہ ہوتی تو اسے خدا کی مرضی قرار دیا جاتا، لوگ خدا سے دعا کرتے اور ایک دن ان کی مراد پوری ہو جاتی، لوگ شکرانے کے نوافل ادا کرتے اور اولاد کو نعمت خدا وندی سمجھتے، مگر آج صورتحال یکسر مختلف ہے لوگ خدا سے دعا کرنے کی بجائے ڈاکٹر کے پاس پہنچتے ہیں جیسے نعوذباللہ ڈاکٹر اولاد دیتے ہیں۔
ڈاکٹر کے پاس جانے میں کوئی حرج نہیں ہے علاج کی غرض سے جانا چاہئے۔ لیکن ہمیں یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ کتنے شادی شدہ جوڑے میڈیکل کے اعتبار سے ٹھیک ہوتے ہیں ان کے سارے ٹیسٹ کلیئر ہوتے ہیں ڈاکٹروں کے پاس جا جا کر تھک چکے ہوتے ہیں اس کے باوجود اولاد کی نعمت سے محروم ہوتے ہیں، جب اللہ سے لو لگائی اور خلوص دل سے اللہ سے مانگا تو اولاد کی نعمت مل گئی۔
جلد بچہ نہ ہونے کی وجہ سے عام طور پر عورت کو قصور وار ٹھہرایا جاتا ہے عورت کے ٹیسٹ کرائے جاتے ہیں، مگر لڑکے کے ٹیسٹ کرانے کو ضروری خیال نہیں کیا جاتا، کئی مثالیں تو ایسی موجود ہیں کہ شادی کے برسوں بعد اولاد نہ ہونے کی وجہ سے مرد نے دوسری شادی کر لی لیکن دوسری شادی کے بعد بھی اولاد کی نعمت سے محروم رہے،ٹیسٹ کرانے پر معلوم ہوا کہ مرد کو طبی مسائل کا سامنا ہے مرد کے علاج کی طرف توجہ دینے کی بجائے عورت کی زندگی برباد کر دی گئی۔ کئی مرد حضرات نے اولاد نہ ہونے کی وجہ سے پہلی بیوی کو طلاق دے دی، دوسری شادی پر معلوم ہوا قصور عورت کا نہیں تھا۔
اسی طرح کئی مرد حضرات لڑکے کی خواہش میں دوسری شادی کر لیتے ہیں حالانکہ جدید سائنس اور طبی ماہرین بتا چکے ہیں کہ لڑکی یا لڑکا پیدا ہونے میں مرد کا رول ہوتا ہے عورت کا اس میں کوئی قصور نہیں ہے پھر بھی عورت کو قصور وار ٹھہرایا جاتا ہے۔
عورت کیلئے سب سے زیادہ اذیت ناک سسرال والوں کے وہ طعنے ہوتے ہیں جو تاخیر سے اولاد ہونے کی وجہ سے اسے سننے پڑتے ہیں۔ سسرال والوں کے ساتھ دیگر رشتہ دار اور آس پاس کے لوگ بھی بنا سوچے سمجھے جلتی پر تیل ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہمیں دوسروں کیلئے مشکلات پیدا کرنے سے پہلے سوچنا چاہئے اور ایسا رویہ اختیار کرنے سے گریز کرنا چاہئے جس سے کسی کی زندگی تباہ ہو جائے۔