صاحبزادی رسول کا اپنے غیر مسلم شوہر کو پناہ دینا
بدر کے قیدیوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے داماد ابوالعاص بن ربیع رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی حضرت زینب رضی اللہ عنہا جو حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کے بطن سے تھیں آپ کی زوجیت میں تھیں۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا ابوالعاص کی خالہ تھیں اور ان کو بمنزلہ اولاد کے سمجھتی تھیں۔
خود حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہہ کر بعثت سے قبل زینب رضی اللہ عنہا کا عقد ابوالعاص سے کیا تھا۔ ابو العاص مالدار، امانت دار اور بڑے تاجر تھے۔ بعثت کے بعد حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا اور آپ کی تمام صاحبزادیاں ایمان لائیں مگر ابوالعاص شرک پر قائم رہے۔
قریش نے ابوالعاص پر بہت زور دیا کہ ابولہب کے بیٹوں کی طرح تم بھی محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی بیٹی کو طلاق دے دو، جہاں چاہو گے وہاں تمہارا نکاح کر دیں گے۔ لیکن ابوالعاص نے صاف انکار کر دیا اور کہہ دیا کہ زینت جیسی شریف عورت کے مقابلے میں دنیا کی کسی عورت کو پسند نہیں کرتا۔
جب قریش جنگ بدر کے لیے روانہ ہوئے تو ابوالعاص بھی ان کے ہمراہ تھے۔ منجملہ اور لوگوں کے آپ بھی گرفتار ہوئے۔ اہل مکہ نے جب اپنے اپنے قیدیوں کا فدیہ روانہ کیا تو حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے اپنے شوہر ابوالعاص کے فدیہ میں اپنا وہ ہار بھیجا جو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے شادی کے وقت اُن کو دیا تھا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس ہار کو دیکھ کر آبدیدہ ہو گئے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے فرمایا : اگر مناسب سمجھو تو اس ہار کو واپس کر دو اور اس قیدی کو چھوڑ دو۔ اس وقت تسلیم اور انقیاد کی گردنیں خم ہو گئیں، قیدی بھی رہا کر دیا گیا اور ہار بھی واپس ہو گیا۔
مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوالعاص سے یہ وعدہ لے لیا کہ مکہ پہنچ کر زینب رضی اللہ عنہا کو مدینہ بھیج دیں۔
ابوالعاص نے مکہ پہنچ کر زینب رضی اللہ عنہاکو مدینہ جانے کی اجازت دے دی اور اپنے بھائی کنانہ بن ربیع کے ہمراہ روانہ کیا۔ کنانہ نے عین دوپہر کے وقت حضرت زینب رضی اللہ عنہا کو اونٹ پر سوار کرایا اور ہاتھ میں تیر کمان لی اور روانہ ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی کا علی الاعلان مکہ سے روانہ ہونا قریش کو شاق معلوم ہوا۔
چنانچہ ابو سفیان اور کفار مکہ نے ذی طویٰ میں آ کر اونٹ کو روک لیا اور یہ کہا کہ ہم کو محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کی بیٹی کو روکنے کی ضرورت نہیں لیکن اس طرح اعلانیہ طور پر لے جانے میں ہماری ذلت ہے۔ مناسب یہ ہے کہ اس وقت تو مکہ واپس چلو اور رات کے وقت لے کر روانہ ہو جاؤ۔ کنانہ نے اس کو منظور کیا۔
ابوسفیان سے پہلے ہبار بن اسود نے ( جو بعد میں چل کر مسلمان ہوئے) جا کر اونٹ روکا اور حضرت زینب رضی اللہ عنہا کو ڈرایا۔ خوف سے حمل ساقط ہو گیا، اس وقت کنانہ نے تیر کمان سنبھال لیا اور یہ کہا کہ جو شخص اونٹ کے قریب بھی آئے گا تیروں سے اس کا جسم چھلنی کر دوں گا۔
الغرض کنانہ مکہ واپس آ گئے اور دو تین راتیں گزرنے پر مدینہ روانہ ہوئے۔ ادھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زید بن حارثہؓ اور ایک انصاری کو حکم دیا کہ تم جا کر مقام بطن یا جج میں ٹھہرو،جب زینبؓ آجائیں تو ان کو اپنے ہمراہ لے آنا۔ یہ لوگ بطن یا جج پہنچے اور ادھر سے کنانہ بن ربیع آتے ہوئے ملے۔ کنانہ وہیں سے واپس ہو گئے اورزید بن حارثہؓ مع اپنے رفیق کے صاحبزادی کو لے کر مدینہ روانہ ہوئے،جنگ بدر کے ایک ماہ بعد مدینہ پہنچیں۔
صاحبزادی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس رہنے لگیں اور ابوالعاص مکہ میں مقیم رہے۔ فتح مکہ سے قبل ابوالعاص بغرض تجارت شام کی طرف روانہ ہوئے ۔ شام سے واپسی پر مسلمانوں کا ایک دستہ مل گیا۔ اس نے تمام مال متاع ضبط کر لیا اور ابوالعاص چھپ کر مدینہ حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے پاس آپہنچے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب صبح کی نماز کے لیے تشریف لائے تو حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے عورتوں کے چبوترے سے آواز دی، اے لوگو!میں نے ابو العاص بن ربیع کو پناہ دی ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز سے فارغ ہوئے تو لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور ارشادفرمایا:
ترجمہ:’’اے لوگو!کیا تم نے بھی سنا ہے جو میں نے سنا؟ لوگوں نے کہا: ہاں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :قسم ہے اُس ذات پاک کی کہ محمدؐ کی جان اُس کے ہاتھ میں ہے،مجھ کو اس کا مطلق علم نہیں اس وقت تم نے سنا وہی میں نے سنا۔ تحقیق خوب سمجھ لو کہ مسلمانوں میں ادنیٰ سے ادنیٰ اور کمتر سے کمتر بھی پناہ دے سکتا ہے۔‘‘
اور یہ فرما کر صاحبزادی کے پاس تشریف لے گئے اور یہ فرمایا: ’’اے بیٹی اس کا اکرام کرنا، مگر خلوت نہ کرنے پائے کیونکہ تو اس کے لیے حلال نہیں یعنی تو مسلمان ہے اور وہ مشرک و کافر۔
اہل سریہ سے یہ ارشاد فرمایا کہ تم کو اس شخص کا تعلق ہم سے معلوم ہے۔ اگر مناسب سمجھو تو اس کا مال واپس کر دو ورنہ وہ اللہ تعالیٰ کا عطیہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے تم کوعطا فرمایاہے اور تم ہی اس کے مستحق ہو۔ یہ سنتے ہی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کل مال واپس کر دیا، کوئی ڈول لاتا اور کوئی رسی،کوئی لوٹا اور کوئی چمڑے کا ٹکڑا۔ غرض یہ کل مال ذرہ ذرہ کرکے واپس کر دیا۔
ابوالعاص کل مال لے کر مکہ روانہ ہوئے اور جس جس کا حصہ تھا اس کا حصہ پورا ادا کیا۔ جب شرکاء کے حصے دے چکے تو یہ فرمایا:
ترجمہ:’’اے گروہ قریش! کیا کسی کا کچھ مال میرے ذمہ باقی رہ گیا ہے جو اس نے وصول نہ کیا ہو؟ قریش نے کہا :نہیں۔پس اللہ تجھ کو جزائے خیر عطا کرے۔
تحقیق ہم نے تجھ کووفادار اور شریف پایا۔ کہا پس میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور بے شک محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور اس کے رسولؐ ہیں۔ میں اب تک فقط اس لیے مسلمان نہیں ہوا کہ لوگ یہ گمان نہ کریں کہ میں نے مال کھانے کی خاطر ایسا کیاہے۔ جب اللہ نے تمہارا مال تمہارے تک پہنچا دیا اور میں اس ذمہ داری سے سبکدوش ہو گیا تب مسلمان ہوا۔‘‘ بعد ازاں ابوالعاص رضی اللہ عنہ مکہ سے مدینہ چلے آئے ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر حضرت زینب رضی اللہ عنہا کو آپ کی زوجیت میں دے دیا۔