تخت باہی کے کھنڈرات میں چھپے تاریخ کے راز
آج کے اس ترقی یافتہ دور میں اگر آپ کو دو ہزار سال پرانی چیز مل جائے تو یقینا ًآ پ حیران ہوں گے، دوہزارسال پہلے کی زندگی کیسے تھی ان لوگوں کا رہن سہن، تہذیب و تمدن کیا تھا یقیناً یہ حیرت انگیز مشاہدہ ہو گا تخت باہی مردان میں دو ہزار قبل کے آثار موجود ہیں، ماہرین کے مطابق دنیا بھر میں بدھ مت تہذیب کے یہ کھنڈرات سب سے بہتر حالت میں موجود ہیں۔
اسلام آباد سے پشاور کی جانب سفر کرتے ہوئے رشکئی انٹرچینج پر مردان کی جانب چلے جائیں تو مردان سے کوئی 20 سے 25 منٹ کی مسافت پر سوات کی جانب تخت باہی کا علاقہ ہے۔ہم رشکئی سے اترکر رنگ روڈ سے ہوتے ہوئے سردار کلے (ساڑو شاہ) پہنچے جو ہمارے بھائی شکیل احمدکا آبائی گائوں ہے مگر وہ بچپن سے اسلام آباد میں ہی مقیم ہیں، ہمارے ساتھ چٹھ بختاور سے چوہدری راشد محمود بھی تھے سردار کلے میں ایک فاتحہ خوانی کے بعد سیدھے تخت باہی شہر پہنچے جہاں ٹی ایم اے آفس میں بھائی محمد سیار نے ناشتے کا اہتمام کیا تھاجس میں ہماری فرمائش پر صرف پشاوری چھولے منگوائے گئے تھے۔
تخت بھائی تحصیل مردان کا سب سے زرخیز علاقہ ہے۔ یہاں کئی طرح کی فصلیں اگتی ہیں، جن میں پٹ سن، گندم اور گنا وغیرہ شامل ہیں اس زمین کی زرخیزی کے پیش نظر ایشیا کا پہلا شکر خانہ یا شوگر مل برطانوی راج میں یہاں بدھا صومعہ (monastery) کے نزدیک بنائی گئی تھی۔ تخت باہی میں ٹریفک جام سے بچنے کے لیے بنایا گیا فلائی اوور پی ٹی آئی حکومت کی ناتجربہ کاری کا منہ بولتا ثبوت تھا جو بازار کے درمیان سے شروع ہو کر بازار کے درمیان میں ہی ختم ہو جاتاہے اس پل کے بائیں جانب خستہ حال ریلوے سٹیشن تھا۔ اور ساتھ ہی تنگ بازار نظر آرہا تھا۔
ان کھنڈرات کی طرف دو راستے جاتے ہیں ایک راستہ وہ ہے جو پگڈنڈیوں پر مشتمل تھا سیاحوں کی آسانی کے لیے اب باقاعدہ آسان دوسرا راستہ بنا دیا گیا ہے ہمارا اصرار تھا کہ مشکل راستے کا انتخاب کیا جائے مگر شکیل بھائی ہمیں آسان راستے کی طرف لے آئے، ہماری گاڑی ایک عارضی پارکنگ میں رکی، جہاں تین اطراف میں پہاڑ تھے، ہمارے بالکل سامنے کھنڈرات تھے جو پہاڑ کی چوٹی پر واقع ہیں اور ڈھائی سو سے تین سو سیڑھیوں کے ذریعے بآسانی ہم اوپر پہنچ گئے۔ یہاں ہمیں محمد سیار اور اسسٹنٹ اکائونٹ افسر ٹی ایم اے سالار خان نے بھی جوائن کیا۔
جہاں ایک حیرت کدہ ہمارا منتظر تھا، غار نما کمرے، چبوترے، سٹوپے، درس گاہ ،کانفرنس ہال ،قیدخانہ غرضیکہ ماضی کی ایک پوری داستان تھی،کچھ مقامات پر گزرگاہ اتنی تنگ تھی کہ ایک ہی آدمی گزر سکتا تھا۔ یہ ایک الف لیلوی جادوئی قسم کا ماحول ہے جہاں جا کر انسان ماضی کو کھنگالتا کھنگالتا خود ماضی میں پہنچ جاتا ہے۔ یہاں مختلف راہداریوں سے گزرنا پڑتا ہے اور مستطیل میدان میں چبوترے بنائے گئے ہیں۔ یہاں سٹوپے بھی موجود ہیں۔ درمیان میں کھلا صحن ہے جہاں گول خاکی رنگ کے پتھروں کا بنا ہوا ایک بڑا سا چبوترہ ہے۔ایک طرف ایک مستطیل مقام ہے جسے سر الیگزنڈر کنھگم نے اسمبلی ہال قرار دیا تھا۔ یہیں سے بدھا کا نامکمل مجسمہ برآمد ہوا تھا جو اب عجائب گھر میں موجود ہے۔
خانقاہ یادگار سے ایک بڑی راہداری کے ذریعے ملی ہوئی ہے، جہاں چاروں اطراف میں چھوٹے چھوٹے پندرہ کمرے بنائے گئے ہیں یہاں راہب چلہ کشی کرتے، درمیان میں پانی کا ایک حوض بنایا گیا تھا تیسری منزل پر چاروں طرف کمرے اور حجرے بنے ہوئے ہیں، کچھ کمروں کی چھتیں موجود ہیں۔ ان کو راہب رہائش کے لیے استعمال کرتے تھے۔ ان عمارتوں میں روشن دان بنائے گئے تھے جبکہ روشنی کے لیے دیواروں میں ایسے طاق رکھے گئے تھے جہاں تیل کے دیے رکھے جاتے تھے۔
حکومت نے مختلف مقامات پر کھنڈرات کے حوالے سے معلومات پر مشتمل بورڈ نصب کیے ہیں جن کے مطابق 1980 میں یونیسکو نے اسے عالمی ورثہ قرار دیا، یہ سطح زمین سے ڈیڑھ سو میٹر کی بلندی پر واقع ہے۔کہا جاتا ہے کہ بدھ حکمران کنشک نے اسے تعمیر کرایا تھا۔ سنہ 1833 میں جب کچھ مزدوروں کو مٹی کھودتے ہوئے پرانے سکے اور مورتیاں ملیں تو انگریز حکومت حرکت میں آئی۔ سر جان مارشل نے اس حوالے سے کافی کام کیا۔ ان آثار قدیمہ کا پتا سب سے پہلے ایک فرانسیسی جنرل کورٹ نے لگایا جو پنجاب کے حکمران مہاراجہ رنجیت سنگھ کی فوج میں افسر تھے۔
سنہ 1852 میں لیفٹینٹ لمسوٹین اور سٹوکس نے کھدائی کی۔ سنہ 1864 میں ڈاکٹر ایچ ڈبلیو بلیو نے ان آثار کا تفصیلی معائنہ کیا جنہوں نے بعد میں وادی پشاور کی تاریخ بھی لکھی۔ سنہ1869 اور 1870 کے درمیان جنرل میکلیکس نے حالات کا جائزہ لینے کے لیے یہاں خصوصی دستہ بھیجا اس وقت بڑی تعداد میں مجسمے برآمد کیے گئے جو مختلف عجائب گھروں میں موجود ہیں یہاں کھدائی کے دوران بدھ مت دور کی بے شمار چیزیں بھی ملیں جن میں زیادہ تر پشاور عجائب گھر میں محفوظ ہیں۔ کچھ مورتیاں، سٹوپے، مٹی اور پتھر کے برتن اور دوسری اشیا یہاں ابھی بھی موجود ہیں۔ یہ بدھ مت کے بڑے اہم مراکز میں سے ایک تھا ۔
اس کے بعد سارجنٹ ویلچر کی قیادت میں کھدائی کرنے والوں کا دستہ بھیجا گیا جبکہ 1872 میں لیفٹینٹ کرامیٹسن اور 1873 میں سرالیگزنڈر کنھگم نے کھدائی کا کام جاری رکھا۔ بعدازاں باقاعدہ کھدائی 1907 میں پشاور میوزیم کے منتظم ڈاکٹر ڈی بی اسپوز کی رہنمائی میں کی گئی۔ پھر ایچ بارگیوس نے بھی کام کیا یوں 1927 میں ان آثار کے بارے زیادہ واضح طور پر معلوم ہو سکا۔
یہ کھنڈرات کسی افسانوی داستان کا کوئی خاص مقام لگتے ہیں۔ چینی سیاح چار سو سال قبل مسیح میں بدھ مت کی مقدس زیارتوں کے لیے برصغیر آئے تو انہوں نے اپنی تحریروں میں شمال مغربی سرحدی صوبہ (کے پی) اور ٹیکسلا کا بھی ذکر کیا۔ ان کے مطابق اس سرزمین میں بدھ مت کی نایاب چیزیں ہیں۔ پھر دو صدیوں بعد راجہ ہرش کے دور حکومت میں ایک اور سیاح ہیون سانگ برصغیر آئے اور انہوں نے بھی اس کا ذکر کیا۔
تاریخ دان اس امر پر متفق ہیں کہ یہاں بدھ مت حکومت رہی۔ تین چار ہزار سال پہلے تخت بھائی بدھ مت کا گہوارہ رہا۔ اس خطے میں بدھ مت کے کھنڈرات محمود غزنوی، نادر شاہ، احمد شاہ ابدالی، سکندر، ظہیر الدین بابر اور دیگر مغلوں، درانیوں، سکھوں اور انگریزوں کی فتوحات اس بات کی عکاس ہیں کہ یہ علاقہ ماضی میں مختلف تہذیبوں کا مسکن رہا ہے خصوصا تیسری صدی قبل مسیح میں بدھ مت نے کافی ترقی کی۔اس دوران مہاراجہ اشوک نے 232 قبل مسیح سے 269 قبل مسیح تک حکومت کی۔ اشوک دور کے ایک کتبے سے جو ٹیکسلا کے آثار قدیمہ سے ملا، یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ ان کی حکومت خیبرپختونخوا کے شمالی علاقوں تک پھیلی ہوئی تھی جس میں تھوڑے سے جنوبی حصے کو چھوڑ کر تمام ہندو پاک اور افغانستان کا علاقہ شامل تھا۔
کھنڈرات کے نظارے کرتے کرتے ہوا کا جھکڑ چلنا شروع ہو گیا جس کی وجہ سے ہم نے واپسی میں ہی عافیت سمجھی مردان اور تخت باہی کے سفرکے دوران اگر وہاں کے کباب نہ کھائے جائیں تو یوں سمجھیں کہ آپ نے سفرکا لطف نہیں اٹھایا کسی دور میں تخت باہی کے کباب مشہور تھے مگر اب رشکئی کے کباب مشہور ہیں ہم نے کباب کھانے کے لیے رشکئی کا انتخاب کیا جہاں کے لذیذ کبابوں سے سفر کا لطف دوبالا کیا چپلی کباب کھانے کے بعد آپ ایک بڑی چے نک قہوے کی منگوائیں اور دو سے تین پیالیاں ایک بندہ پی لے تو یقین مانیے چند لمحوں میں جو کچھ آپ نے کھایا ہو گا سب کچھ ہضم ہو جائے گا۔ یوں کھایا پیا ہضم کرنے کے بعدخوشگوار یادوں کے ساتھ ہم واپس اسلام آبادکی طرف روانہ ہوئے۔