سعودی عرب اور ہندوستان کے تعلقات کی پیش گوئی
سعودی عرب کا ایک معروف اداراہ تحقیقی اِدارہ "مرکز برائے تحقیق و علمی ابلاغ” Centre for Research and Knowledge Communication ہے، یہ گاہے گاہے کئی علمی تحقیقات پر کام کرتا ہے، ماضی میں کئی مغربی ممالک کے اسکالرز، سیاحوں کے سعودی خطے میں کئے گئے دوسری زبان میں تحاریر کو عربی میں منتقل کرنے کے علاوہ مختلف النوع تحقیقاتی کاموں کو بھی کتابی شکل دیتا ہے، قدیم علمی کتابوں پر اس سر نو تحقیقی مضامین وغیرہ پر بھی یہاں تحقیقاتی مطالعات کو شامل کرتا ہے ۔
ابھی گزشتہ ماہ "مرکز برائے تحقیق و علمی ابلاغ” Centre for Research and Knowledge Communication نے "اسامہ یوسف الادریسی” کا تحقیقاتی مطالعہ کتابی شکل میں شائع کیا ہے، جس کا نام "العلاقات السعودية الھندية” یعنی "سعودی- ہندوستانی تعلقات” موجودہ صورتحال اور مستقبل کی پیشن گوئی” ہے، جی ہاں یہ ہمارے پڑوسی ملک کے اور سعودی عرب کے تعلقات کے حال و مستقبل کے درمیان موجودہ تعلقات کا تجزیہ اور ماضی کے تاریخی تناظر کے پس منظر میں دونوں ممالک جن حالات سے گزرے اور آج کے موجودہ حالات ، اقتصادیات اور سیاسی واقعات کی بنیاد پر دونوں ممالک کے مابین تعلقات کے مستقبل کا اندازہ لگانے کی سعی ہے ۔
محقق اسامہ یوسف الادریسی نے مشرق وسطیٰ کے اہم ممالک کے آپسی تعلقات اور اتحادیوں کے درمیان طاقت کے توازن میں فرق، سعودی عرب کا جھکاؤ مشرق کی طرف ہےاور ان رجحان کے اثرات دیگر ممالک کے ساتھ مملکت سعودی عرب کے تعلقات سے دکھانے کی کوشش کی ہے، اور خلیج عرب کے خطے میں ہندوستان کی موجودگی کا جائزہ لیا ہے۔ سعودی عرب اور ہندوستان کے درمیان تعلقات کی تاریخ، موجودہ تبدیلیاں، ہندوستانی معیشت کے حجم کی تعریف، سب سے اہم سعودی مواقع اور فوائد، متوقع چیلنجز، دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو متاثر کرنے والے اہم ترین نکات کے علاوہ تعلقات کے مستقبل کی پیشین گوئی کی ہے۔
خطے میں ہندوستان کے بڑھتے ہوئے معاشی عروج کے لیے توانائی کے ذرائع کے حصول کی خاطر اس کی دلچسپی اور انھیں محفوظ بنانے پر اور خصوصا متبادل توانائی کے طور پر سعودی عرب کے لیے ایک اچھا موقع ہے۔سعودی عرب اور ہندوستان کے درمیان تعلقات کو مضبوط بنانے کے لیے ثقافتی اور مذہبی رشتوں میں سرمایہ کاری کرنے پر مختلف مباحث ہیں۔ بین الاقوامی سیاسی حرکیات میں ہندوستان اور سعودی عرب کو جانچا گیا ہے۔
ظاہر ہے کہ ایک تحقیقی مطالعہ پیش کرنے والا شخص اپنے خطے میں ایک ملک کو ایک مضبوط حیثیت سے اور اپنے ملک کے ساتھ کن بنیادوں پر فائدہ مند ہونے پر پرکھتا ہے، اور اس پر ایک مکمل تحقیقاتی مطالعہ بھی پیش کرتا ہے ، جو کم ازکم میرے لئے قدرے سوچ کا سطح پر یہ آگاہی ضرور دیتا ہے کہ ہم بحیثیت پاکستان سعودی عرب سے تجارتی، معاشی اور دوسرے زندگی کے امور پر دو طرفہ معاہدے اور ضرورت کے امکانات کیوں پیدا نہیں کرسکے یا متوجہ نہ کرسکے کہ ہمارے ملک کے لئے بھی وہ اس طرح سوچیں۔