مہنگی بجلی، پاکستان الیکٹرک مصنوعات میں پیچھے

دنیا میں سستی بجلی کے باعث الیکٹرک مصنوعات کا فروغ، پاکستان میں مہنگی بجلی اور توانائی بحران

پاکستان ترقی میں دیگر ممالک سے پیچھے ہے تو اس کے ذمہ دار بھی ہم خود ہیں کسی نے ہمارے خلاف سازش نہیں ہے بلکہ ہم جدید زمانے کے تقاضوں کو نہیں سمجھ سکے ہیں۔ اس وقت دنیا الیکٹرک مصنوعات پر منتقل ہو چکی ہے گھریلو استعمال کی معمولی اشیاء سے لے کر بڑی گاڑیوں تک بجلی پر چلنے والی رواج پا چکی ہیں کیونکہ وہاں پر بجلی نہایت سستی ہے، اس کے برعکس ہمارے ہاں توانائی کا بحران برقرار ہے اور اگر بجلی دستیاب ہے تو اس کے نرخ بہت زیادہ ہیں۔

پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جہاں پر شدید گرمی پڑتی ہے مگر بہت سے لوگوں کیلئے ایئر کنڈیشنڈ لگژری آئٹم سمجھی جاتی ہے لوگ چاہتے ہوئے بھی اے سی نہیں لگوا سکتے کیونکہ وہ بخوبی جانتے ہیں کہ انہوں نے اگر اے سی لگوا لیا تو بجلی کا بل وہ افورڈ نہیں کر سکیں گے۔ چند سال پہلے ہمیں سعودی عرب میں رہنے کا موقع ملا تو دیکھا کہ ہر گھر میں دو چار اے سی لگے ہوئے ہیں کیونکہ بجلی کا بل نہایت کم تھا، اس کے برعکس ہمارے ہاں اے سی ایلیٹ کلاس کی ضرورت سمجھا جاتا ہے۔

آڈی کی خوبصورت الیکٹرک کار

نیشنل الیکٹرک اینڈ پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) نے بجلی کی فی یونٹ قیمت میں 3روپے 10پیسے کا اضافہ کر دیا ہے، یہ اضافہ دسمبر کی فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کی مد میں کیا گیا ہے جس کا اطلاق فروری کے بجلی بلوں کی مد میں ہو گا۔ نیپرا کی طرف سے جاری نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ 50یونٹ ماہانہ استعمال کرنے والے صارفین اس اضافے سے مستثنیٰ ہوں گے۔

فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کی مد میں کیے جانے والے اضافے سے صارفین پر 30ارب روپے کا اضافی بوجھ پڑے گا، بجلی کی قیمتوں میں اضافے کے جواز میں کہا جا رہا ہے کہ یکم فروری 2022ء کو عالمی منڈی میں پٹرول ساڑھے 6روپے جب کہ ڈیزل 5 روپے لیٹر مہنگا ہوا ہے جسے حکومت نے پاور ہائوس پر پڑنے والے بوجھ کو صارفین پر منتقل کر دیا ہے، خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اگلے چند روز میں پٹرول و ڈیزل کی قیمتوں میں بھی 13سے 18روپے فی لیٹر اضافہ ہو سکتا ہے۔

الیکٹرک چولہے اور گھریلو استعمال کی دیگر مصنوعات

بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ تیل کی قیمتوں میں تبدیلی کے ساتھ بجلی کے بلوں کی قیمتوں میں ایڈجسٹمنٹ کر سکتی ہیں۔ تیل کی قیمتوں میں اضافے کی صورت میں بجلی کے بل بڑھا دیے جاتے ہیں جبکہ کمی کی صورت میں صارفین کو ریلیف دیا جاتا ہے، جس کی تمام تفصیل بل کے اندر موجود ہوتی ہے۔

فیول ایڈجسٹمنٹ سرچارج کی مد میں فی یونٹ اضافہ کا تعین بجلی تقسیم کار کمپنیاں از خود نہیں کر سکتی ہیں بلکہ وفاقی ادارہ نیپرا کرتا ہے ، بعد ازاں تقسیم کار کمپنیوں کو بتایا جاتا ہے کہ اس حساب سے فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ سرچارج کے تحت بل بنایا جائے۔

تاہم فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ فارمولے پر عوام کو ہمیشہ تحفظات رہے ہیں، عوام برملا کہتے ہیں کہ جس مہینے کے بجلی کے بل وہ ادا کر چکے ہیں ، چند ماہ بعد آنے والے بل میں گذشتہ مہینوں کا بل بھی شامل کر دیا جاتا ہے۔ حکومت نے عوام کے اس شکوہ کو دور کرنے کی سنجیدہ کوشش نہیں کی ہے، حتیٰ کہ ان علاقوں میں بھی فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ شامل کر دیے جاتے ہیں جو پن بجلی یا دیگر ذرائع سے بجلی پیدا کر رہے ہیں۔

اسی کا نتیجہ ہے کہ بجلی کی قیمتوں میں کیے جانے والے آئے روز کے اضافے کا سارا بوجھ صارفین کو اُٹھانا پڑتا ہے، ایک سروے کے مطابق پاکستان کے عوام خطے میں مہنگی ترین بجلی خریدنے پر مجبور ہیں ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت عوام کی مشکلات کا ادراک کرنے سے قاصر ہے اور ہر خسارے کو عوام پر بوجھ ڈال کر پورا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

امریکہ کی جارجیا یونیورسٹی میں چلنے والی الیکڑک بسیں


حقیقت یہ ہے کہ حکومتیں عوامی سکت اور فی کس آمدن کو مدِنظر رکھ کر پالیسیوں کو ترتیب دیتی ہیں مگر بدقسمتی سے ہمارے ہاں اس امر کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔

ترقی یافتہ ممالک کے نظام کا سرسری جائزہ لینے سے معلوم پڑتا ہے کہ وہاں پر بنیادی ضروریات زندگی کو ہر شہری کی دسترس میں رکھا جاتا ہے ۔ صحت، تعلیم اور روز مرہ کی ضروریات کو ہر شہری کا حق قرار دے کر مفت یا نہایت سستا رکھا گیا ہے تاکہ کوئی شہری بنیادی ضروریات سے محروم نہ رہے۔

اس مقصد کے لیے حکومتیں مختلف مدات میں سبسڈی کا اعلان کرتی ہیں تاکہ عوام پر کم سے کم بوجھ پڑے، جبکہ پاکستان میں ہر خسارے کو پورا کرنے کے لیے عوام پر بوجھ ڈال دیا جاتا ہے ، یہ جانتے ہوئے بھی کہ عوا م اس کے متحمل نہیںہو سکتے ہیں۔ پاکستان میں فی کس آمدن 15سو 43ڈالر ہے جو پاکستانی روپوں میں 2لاکھ 70ہزار روپے بنتی ہے۔

یہ رپورٹ وفاقی سطح پر کام کرنے والی نیشنل اکائونٹس کمیٹی کی جاری کردہ ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ خطے کے دیگر ممالک کی نسبت پاکستان میں فی کس آمدن بہت کم ہے، ایسی صورتحال میں ہونا تو یہ چاہیے کہ حکومت عوام کو ریلیف دے اور اضافی بوجھ کو کسی دوسرے منصوبے سے پورا کرنے کی کوشش کرے ، مگر پاکستان کے معروضی حالات میں ایسا نہیں سوچا گیا اور جو روایت برسوں سے قائم تھی اسے جاری رکھا گیا۔

مہنگی بجلی کا نقصان ہر سطح پر محسوس کیا جا رہا ہے، بالخصوص کاروباری طبقہ کے لیے مشکلات بڑھ گئی ہیں جس کی وجہ سے ان کا کاروبار متاثر ہو رہا ہے، اس کا نقصان یہ ہو رہا ہے کہ ہم مہنگی بجلی کی وجہ سے کاروبار میں پیچھے رہ گئے ہیں، اس کے برعکس دیگر ممالک میں دیکھا جائے تو صنعتی سطح پر بجلی کی بلاتعطل فراہمی یقینی بنائی جاتی ہے اور فی یونٹ نرخ بہت کم ہیں۔

دنیا تو الیکٹرک گاڑیوں پر منتقل ہو چکی ہے جو ماحول دوست بھی ہیں اور فیول کا خرچہ بھی نہیں، کہا جا رہا ہے کہ آنے والا دور بجلی پر چلنے والی مصنوعات کا ہو گا۔ ایسے حالات میں پاکستان جیسے جو ممالک توانائی کے مسائل میں الجھے رہیں گے ، وہ ترقی کی راہ میں بہت پیچھے رہ جائیں گے۔ دریں حالات ضروری معلوم ہوتا ہے کہ حکومت بلا تعطل اور سستی بجلی کی فراہمی کے لیے ہر وہ اقدام کرے جس کی ہمیں ضرورت ہے۔

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button