زندگی تصور سے بھی زیادہ چھوٹی ہے، غم نہ کیجئے
ڈیل کارنیگی نے ایک شخص کا واقعہ لکھا ہے جس کی آنتوں میں زخم ہو گئے تھے۔ اس کی خطرناک حالت اس قدر بڑھ گئی تھی کہ ڈاکٹروں نے اس کی موت کا وقت متعین کرکے اس کے کفن دفن کے انتظام کے لیے کہہ دیا تھا۔
کارنیگی لکھتا ہے کہ ’’اس نے اچانک ایک عجیب و غریب فیصلہ کیا ۔ اس نے اپنے دل میں کہا کہ اس دنیا میں تھوڑی سی مدت باقی ہے لہٰذا مجھے بہرصورت اس زندگی سے لطف اندوز ہونا چاہیے۔ میں نے کتنی بار تمنا کی کہ مرنے سے پہلے دنیا کا چکر لگا لوں تو یہی وہ وقت ہے جب میری یہ خواہش پوری ہو سکتی ہے۔
چنانچہ اس نے ٹکٹ خریدا۔ ڈاکٹروں کو بے چینی ہوئی ۔انہوں نے کہا کہ ایسا مت کرو ورنہ سمندر میں ہی تمہیں دفن کرنا پڑے گا۔ لیکن اس نے کہا کہ ایسا کچھ نہیں ہوگا۔ میں نے عزیزوں کو وصیت کر دی ہے کہ میرا جسم فیملی قبرستان میں ہی رکھا جائے ۔
ہینری نے جہاز پر بیٹھ کر سفر شروع کردیا اور خیام کی یہ رباعی پڑھی:
’’آؤ ہم انسانوں سے ایک قصہ کہیں اور رات کی محفل میں ہی عمر گزار دیں۔ کیونکہ نہ نیند عمر میں اضافہ کرتی ہے اور نہ رت جگے سے عمر میں کمی آتی ہے۔‘‘
ہمیں خیام کے اس تصور زندگی سے تو اتفاق نہیں کیونکہ منج ربانی سے انحراف پایا جاتا ہے ۔ لیکن اس آدمی نے ہنسی خوشی اپنا سفر شروع کیا۔ جہاز سے اپنی بیوی کے نام خط میں لکھا کہ جہاز پر جو کچھ بھی لذیذ اور خوش گوار کھانے پینے کو مل رہا ہے وہ لے رہا ہوں حتیٰ کہ ممنوعہ چکنائی بھی خوب کھائی اور پوری زندگی میں اتنا لطف نہیں آیا جتنا کہ اب آ رہا ہے۔
پھر کیا ہوا؟
ڈیل کارنیگی بتاتا ہے کہ آدمی کی بیماری ختم ہو گئی ۔ آلام و امراض پر غلبہ پانے اور کنٹرول کرنے کے لیے کارنیگی نے اسی طریقہ کو کامیاب قرار دیا ہے۔ مقصود قصہ کا یہ ہے کہ خوشی و مسرت بہت سی جڑی بوٹیوں سے زیادہ کارگر اور سود مند ہوتی ہے۔