خواتین میں ہائی ہیلز کا فیشن یا وبالِ جان؟

ہائی ہیلز پہننے والی خواتین جدت پسند اور پُروقار تو نظر آتی ہیں مگر اونچی ایڑھی والا جوتا پہننا وبالِ جان بھی ہو سکتا ہے


دنیا کی ہر عورت پرکشش اور پروقار نظر آنا چاہتی ہے، خواتین کی اس فطری خواہش کی تکمیل کے لیے فیشن کے نئے نئے رجحانات سامنے آتے رہتے ہیں مگر خواتین میں ہائی ہیلز یعنی اونچی ایڑھی والے جوتوں کا فیشن کبھی پرانا نہیں ہوا… مارلن منرو کہتی ہیں ’’ہائی ہیلز پہننے والے خواتین کو جدت پسند اور فیشن کی دلدادہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کیونکہ ہائی ہیلز کسی بھی عورت کے منفرد انداز اور شان و شوکت کو ظاہر کرتی ہیں۔‘‘

یہی وجہ ہے کہ اگر ہم 1960، 70اور 80 کی دہائی میں بننے والی فلمیں دیکھیں تو ان میں جب کسی دیہاتی یا ان پڑھ لڑکی کو جدت پسند اور پڑھی لکھی حسینہ کے کردار کے طور پر پیش کرنا ہوتا تو اسے اونچی ایڑھی والے جوتے پہنا کر چلنا سکھایا جاتا تھا…یعنی آج سے تین چار عشرے قبل خواتین میں ہائی ہیلز پہننے کا رجحان جدت ‘ فیشن‘ اعلیٰ سماجی مرتبہ اور انفرادیت کی علامت سمجھا جاتا۔ دنیا کے تقریباً تمام ممالک کی خواتین میں ہائی ہیلز والے جوتوں کا رجحان عام ہے‘ خصوصاً ایشیائی ممالک میں ‘ جہاں کی خواتین چونکہ زیادہ دراز قد نہیں ہوتیں ‘ ان ممالک میں ہائی ہیلز پہننا خواتین کی فطری مجبوری بھی ہے۔

مارلن منرو ہی کے مطابق ’’میں نہیں جانتی کہ اونچی ایڑھی والے جوتے کس نے ایجاد کیے مگر ان سے سب سے زیادہ فائدہ عورتوں نے ہی اٹھایا ہے۔‘‘ ایک بینک میں کام کرنے والی حنا حیات نامی خاتون بتاتی ہیں کہ مجھے سے ہی ہائی ہیلز پہننے کا بہت شوق ہے اور میرے ہر انداز کی ہائی ہیلز موجود ہیں۔ مجھے یہ شوق اپنے سکول کی پرنسپل صاحبہ کی وجہ سے ہو‘ وہ ایک بہت ہی بارعب اور دھیمے لہجے اور پُروقار شخصیت کی مالک تھیں۔ وہ ہمیشہ ایک مخصوص طر ز کا لباس اور بلیک پنسل ہیل پہنتیں۔ جب وہ سکول کی تمام کلاسوں میں چکر لگانے کے لیے اپنے کمرے سے نکلتیں تو جہاں جہاں ان کے قدم جاتے عجیب سا سناٹا چھا جاتا اور ان کی پنسل ہیل کی مخصوص آواز واضح طور پر ہماری سماعتوں سے ٹکراتی۔ میں اپنی پرنسپل صاحبہ کی پنسل ہیل کی آواز آج بھی اپنے لاشعور میں محسوس کر سکتی ہوں۔ اس وقت مجھے لگتا تھا پرنسپل صاحب کی بارعب شخصیت میں سارا کمال ان کی پنسل ہیلز کا ہے اس لیے میں نے بھی لاشعوری طور پردوسروں پر اپنی شخصیت کا رعب جمانے کے لیے پنسل ہیلز پہننا شروع کردیں…

آج کل پنسل ہیلز والے جوتوں کا فیشن کافی مقبول ہو رہا ہے

ماہرین نفسیات فریحہ ناز کہتی ہیں : ’’دراصل اونچی ایڑھی والے جوتوں کا رجحان مغربی ممالک سے آیا ہے اور ان ممالک میں خواتین مردوں کو متوجہ کرنے کے لیے ہائی ہیلز پہنتی ہیں ، اس حوالے سے کئی تحقیقات بھی ہو چکی ہیں جن میں بتایا گیا ہے کہ مرد ’’ہائی ہیل‘‘ پہننے والی خواتین سے جلد متاثر ہوتے ہیں دوسری طرف چونکہ ہمارے ہاں عموماً لڑکیوں کا قد چھوٹا ہوتا ہے اس لیے ہائی ہیلز ان کی خود اعتمادی میں اضافہ کرتی ہیں ، اس کے برعکس لمبے قد والی لڑکیاں محض پرکشش نظر آنے کے لیے ہائی ہیلز پہنتی ہیں۔ دوسری طرف ورکنگ ویمن کا خیال ہے کہ آفس وغیرہ میں فلیٹ جوتے پہننے سے وہ اپنے آپ کو غیر مطمئن اور غیر اہم تصور کرتی ہیں‘ اس لیے وہ کام کی جگہوں پر ’’فارمل لُک‘‘ کے لیے ہائی ہیلز پہننے کو ترجیح دیتی ہیں۔

ہائی ہیل پہننے والی لڑکیوں کی چال ڈھال میں جو وقار اور کشش جھلکتی ہے وہ مردوں کے ساتھ ساتھ دیگر خواتین کو بھی مائل کرتی ہیںکہ وہ بھی ہائی ہیل پہن کر اپنی شخصیت میں تبدیلی لائیں۔ ویسے بھی ہمارے ہاں دراز قد خواتین مختلف شعبہ ہائے زندگی میں زیادہ کامیاب ہیں کیونکہ انہیں دراز قد ہونے کی وجہ سے پستہ قد خواتین کی نسبت زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ اگر ہم شوبز کی بات کریں تو دراز قد اداکارائیں او رماڈلز نسبتاً زیادہ مشہور اور کامیاب ہیں۔ بعض لڑکیاں اور خواتین ہائی ہیلز کو اپنی ’’سٹائل سٹیٹمنٹ‘‘ بنا لیتی ہیں چنانچہ ان کے ارد گرد موجود لوگ انہیں ایک مخصوص قد میں دیکھنے کے عادی ہوجاتے ہیں۔‘‘

ہائی ہیل پہننے کی ابتداء کیسے ہوئی؟

کہا جاتا ہے قدیم مصر (3500) قبل از مسیح میں شاہی خاندانوں کے افراد نے اونچی ایڑھی والے جوتے پہننا شروع کیے تاکہ اپنی رعایا اور نچلے طبقے میں خود کو اعلیٰ اور برتر ظاہر کر سکیں کیونکہ ایک طرف وہ طبقہ تھا جنہیں ہائی ہیلز تو دور کی بات ‘ جوتے ہی میسر نہ تھے، چنانچہ شاہی گھرانوں کے مرد و خواتین مذہبی تقریبات میں خصوصی طور پر ہائی ہیلز پہنتے۔

مصر کے قصاب بھی جانور ذبح کرتے ہوئے اونچی ایڑی والے جوتے پہنا کرتے تھے تاکہ ذبح شدہ جانوروں کی آلائشوں سے بچا جا سکے۔ اس مقصد کے لیے چمڑے کے ٹکڑوں کو جوڑ کر ایڑھی کی شکل دے کر جوتے کا ڈیزائن ’’آنکھ ‘‘ کے مشابہ بنایا جاتا تھا جو زندگی کی نشاندہی کرتا تھا۔ اسی رح روم میں یونان میں ’’کٹھورنی‘‘ اور ’’بسکنز‘‘ کے نام سے جوتے بنائے جاتے جنہیں تھیٹر کے اداکار اور اداکارائیں پہنتی تھیں تاکہ وہ عام لوگوں سے منفرد نظر آ سکیں۔

قدیم روم میں خواتین کے جسم فروشی کے فعل کو قانوناً جرم نہیں سمجھا جاتا تھا ۔ یہ خواتین بھی ایک دوسرے سے مقابلے کی بنا پر اونچی ایڑھی والے جوتے پہنتی تھیں اور ان کے لیے دس انچ سے لے کر اٹھارہ انچ تک ہیل والے جوتے ڈیزائن کیے جاتے تھے۔ ان خواتین کو ماننا تھا کہ جس عورت کے جوتوں کی اونچائی جتنی زیادہ ہو گی‘ اس کے خریدار بھی اتنے زیادہ ہوں گے۔ ان عورتوں کے جوتوں کی ایڑھی اور تلوے کا رنگ سرخ ہوتا تھا۔ چنانچہ عام عورتوں میں سے ایسی عورتوں کو پہچاننا نسبتاً آسان ہوتا تھا۔

1400ء میں ہائی ہیلز باقاعدہ فیشن کا حصہ بنیں اور فرانسیسی ڈیزائنرز نے 1533ء میں پہلی مرتبہ خواتین کے لیے خصوصی طور پر ہائی ہیلز ڈیزائن کیں۔ ان جوتوں کو پہن کر خواتین کی ٹانگیں لمبی محسوس ہوتی تھیں۔ 1600کے وسط تک یہ فیشن پورے یورپ میں عام ہو گیا اور اس دور کی خواتین نے 30انچ اونچے جوتے بھی پہنے مگر چلنے میں پھرنے میں دشواری کی بنا پر وہ عموماً چھڑی کا استعمال کرتی تھیں۔ یہاں تک کہ دولتمند خواتین جب کہیں آتی جاتیں تو ان کے ہمراہ ایک ملازم ہوتا جو گرنے کی صورت میں انہیں سنبھالتا۔ کہا جاتا ہے کہ فرانس کی ملکہ کیتھرائن ڈی میڈیسی نے پہلی مرتبہ اپنے لیے ہائی ہیلز ڈیزائن کروائیں ۔ کیتھرائن 14برس کی تھیں جب ان کی منگنی ڈیوک آف اورلینڈز ڈائنے ڈی پوئٹرز سے ہوئی۔

کیتھرین کم عمر ہونے کی وجہ سے قد میں بھی چھوٹی تھیں اور ڈائنے خاصے دراز قد تھے۔ کیتھرین کو خدشہ تھا کہ کہیں ڈائنے کسی اور دراز قد خاتون کو اپنا منظورِ نظر نہ بنا ڈالیں۔ انہوں نے ڈائنے کسی اور دراز قد خاتون کو اپنا منظورِ نظر نہ بنا لیں۔ انہوں نے ڈائنے کو اپنی طرف متوجہ رکھنے کا توڑ ہائی ہیلز کی شکل میں نکالا اور دیکھتے ہی دیکھتے فرانس کے مالدار گھرانوں کی خواتین نے بھی اپنا لیا۔ ابتداء میں مرد و خواتین کے جوتوں کے انداز ایک جیسے تھے مگر پھر گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ ان کے ڈیزائن اور ہیلز کے انداز میں بھی جدت آ تی گئی۔ 1630 ء کی دہائی سے عورتوں کے پہننے‘ اوڑنے اور رہن سہن کے انداز میں خصوصاً تبدیلی آنا شروع ہوئی اور انہوں نے جوتوں کے نت نئے رجحانات پر توجہ دینا شروع کی۔

دوسری طرف ہائی ہیلز پہن کر مردوںکو روز مرہ معمولاتِ زندگی میں دشواری کا سامنا کرنا پڑا مثلاً ڈرائیونگ ‘ پہاڑوں پر چڑھنا اور بھاگ دوڑ کے دیگر کام ہائی ہیل والے جوتے پہن کر انجام دینا ممکن نہ رہا تو انہوں نے 1740ء کے لگ بھگ ہائی ہیلز کو خاص عورتوں کا فیشن قرار دے دیا۔ ان کا خیال تھا کہ چونکہ عورتیں کم عقل‘ ان پڑھ اور جذباتی ہوتی ہیں اور ہائی ہیلز پہننا بے وقوفی سے زیادہ کچھ نہیں اس لیے یہ بے وقوفی عورتیں ہی کر سکتی ہیں مرد نہیں…

تاریخ یہ بتاتی ہے کہ آج کی طرح اس زمانے میں بھی عورتوں میں مردوں کی برابری کرنے کا رجحان پایا جاتا تھا اور ا س دور کی عورتوں نے پہلی مرتبہ مردوں کی طرح بال کٹوانا شروع کیا‘ سگریٹ ‘ سگار اور پائپ کا استعمال کرکے جدت پسندی کا نعرہ لگایا او رمردوں کی دیکھا دیکھی ایڑھی والے جوتے پہن کر انہیں بتا دیا کہ وہ بھی ان کی برابری کر سکتی ہیں…

تین انچ سے زائد ہیل نقصان دہ ہے

آرتھوپیڈک ماہرین کے مطابق ’’جو خواتین ساڑھے تین انچ یا اس سے زائد ہائی ہیلز پہنتی ہیں ‘ انہیں زندگی کے کسی بھی حصے میں آسٹیو ارٹھرائٹس کا مسئلہ ہو سکتا ہے جس سے ان کے معذور ہونے کا خدشہ بڑھ جاتا ہے۔ ویسے بھی طویل عرصے تک ہائی ہیلز پہننے والی خواتین کی پنڈلیوں کے پٹھے سکڑ جاتے ہیں جو پٹھوں میں درد اور تشنج کا باعث بنتے ہیں۔ چنانچہ ایسی خواتین اپنی ٹانگوں میں ہر وقت اکڑاؤ محسوس کرتی ہیں۔

آرتھوپیڈک ڈاکٹر عثمان احمد کی رائے میں بھی ’’خواتین کے لیے ہائی ہیلز پہننا سخت نقصان دہ ہے اس لیے بیس سے تیس برس تک عمر کے دوران خواتین 3انچ سے زائد ہیلز پہننے سے گریز کریں کیونکہ ہیلز کی وجہ سے ان کی کمر ‘ پنڈلیوں اور پاؤں میں درد ‘ تھکن اور سوجن ہو سکتی چونکہ ہمارے ہاں خواتین میں ایکسرسائز کرنے کا رجحان نہیں ہے اس لیے ان کا ’’مسل ماس‘‘ کم ہوتا ہے ‘ ان میں وٹامن ڈی کی کمی پائی جاتی ہے ‘ ایسے میں ہائی ہیلز پہن کر توازن برقرار نہ رہنا عام سی بات ہے‘ اس سے ’’موچ‘‘ آنے کا اندیشہ زیادہ ہوتا ہے ۔

ہائی ہیلز کی وجہ سے خواتین میں ’’اینگل آرتھرائٹس ‘‘ کا مسئلہ سب سے عام ہے۔ چنانچہ اگر پاؤں میں موچ آ جائے تو سب سے پہلے پاؤں کو آرام دہ حالت میں رکھیں اور پاؤں پر برف کے ٹکڑوں سے مساج کرنے کے بعد درد سے نجات کے لیے کسی جیل کا مساج بھی کریں ‘ اس سے سوزش اور درد سے نجات ملتی ہے۔ اس مساج کے بعد پاؤں کا اونچا رکھیں مگر ہوا میں نہ لٹکائیں اور موچ ٹھیک ہو بھی جائے تو پھر بھی ایک مہینے تک دوبارہ ہیلز نہ پہنیں۔

شوبز حسینائیں اور ہائی ہیلز

فیشن اور گلیمر کو ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جا سکتااس لیے ماڈلز اور اداکارائیں فلیٹ جوتوں کی نسبت ہائی ہلز کو ترجیح دیتی ہیں کیونکہ ہائی ہیلز سے ان کی شخصیت میں گلیمراجاگر ہوتا ہے۔ شوبز حسیناؤں کو چھوٹے بڑے قد کی قطعاً پروا نہیں ہوتی ۔ اکثر خیال کیا جاتا ہے کہ خواتین محض فیشن کے لیے ہی نہیں بلکہ حصولِ توجہ کے لیے بھی ہائی ہیلز پہننا پسند کرتی ہیں۔

فیشن کریں … خود پر ظلم نہ کریں

عورتیں فیشن کے رجحانات سے ہم آہنگ رہنا چاہتی ہیں اور ہائی ہیلز کا فیشن تیزی سے عام ہو رہا ہے جس کے لیے شو برانڈز نئے نئے انداز میں ہیلز متعارف کروا رہے ہیں۔ اب چونکہ ہائی ہیلز کی مانگ بڑھ گئی ہے اس لیے یہ عام جوتوں کی نسبت زیادہ مہنگی بھی ہوتی ہیں۔ مگر جدت پسند اور فیشن سے ہم آہنگ خواتین اپنے شوق کا ہر مول چکانے کو تیار نظر آتی ہیں۔ تاہم فیشن ضرور کریں مگر اپنی صحت کا بھی خیال رکھیں کیونکہ عام طور پر ہائی ہیلز پاؤں کے لیے آرام دہ نہیں ہوتیں اور ذرا سا عدم توازن ہڈیوں کی ٹوٹ پھوٹ کا باعث بھی بن سکتا ہے ۔

کوشش کریں ہائی ہیلز خریدتے ہوئے ایسے جوتوں کا انتخاب کریں جنہیں پہن کر چلنے پھرنے میں تکلیف محسوس نہ ہو۔ یہ بھی خیال رہے ایسے ہیل والے جوتے نہ لیں جن کی آواز دوسروں کو گراں گزریں، خصوصاً جب دفتروں میں لوگ خاموشی میں کام کر رہے ہوں تو کسی خاتون کے جوتوں کی آواز ذہن کو منتشر کرنے کا باعث بنتی ہے، اس لیے جوتے منتخب کرتے وقت احتیاط سے کام لیں۔

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button