اسرائیل کی تنظیمیں فلسطینیوں پر مظالم کیخلاف
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ کو اسرائیل کے مظالم کے خلاف اب تک ہونے والی تمام آوازوں میں ایک سنگ میل Milestone کا درجہ دیا جاسکتا ہے
ایمنسٹی انٹرنیشنل International Amnesty انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ہے، جس کی ٹرانسپیرنسی کی تقریبا ًپوری دنیا قائل ہے، ایمنسٹی انٹرنیشنل نے پچھلے ہفتے ایک تازہ رپورٹ جو تقریبا ًچار برسوں میں مرتب ہوئی ہے، اور یہ رپورٹ 278 صفحات پر مشتمل ہے۔ اس رپورٹ کے سامنے آنے کے بعد انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ Human Rights Watch اور اسرائیل میں کام کرنے والی دو مقامی اسرائیلی انسانی حقوق کی تنظیموں "بتسلیم” B’Tselem اور "ييش دين” Yesh Din بھی اسرائیل کے نسل پرست اقدامات میں فلسطینیوں پر مظالم کے خلاف اسرائیل کے خلاف کھڑی نظر آرہی ہیں۔
اسرائیل میں انسانی حقوق پر کام کرنے والے مقامی اسرائیلی یہودی بھی فلسطینیوں پر مظالم کے قائل نہیں ہیں، ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ کو اسرائیل کے مظالم کے خلاف اب تک ہونے والی تمام آوازوں میں ایک سنگ میل Milestone کا درجہ دیا جاسکتا ہے۔ کیونکہ اسرائیل کے پاس اس رپورٹ کو ماسوائے جھنجھلاہٹ میں جھٹلانے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں بن رہا۔ یہ رپورٹ ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب اسرائیل کے انسانیت کے خلاف جرائم میں فلسطین کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، جو گذشتہ سال کے مقابلے میں اس سال کی تعداد خطرناک حد تک زیادہ بھی ہے۔
اسرائیل کی فلسطینیوں کے خلاف نسل پرستی Israel’s Apartheid against Palestinians کے عنوان پر مبنی اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کیسے اسرائیل فلسطینی عوام کے خلاف جبر اور تسلط کے نظام قائم کو کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اسلامی تعاون تنظیم نے بھی رپورٹ کا خیر مقدم کیا ہے اور عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ اسرائیل کی فلسطینی عوام کے خلاف ہونے والی خلاف ورزیوں، جرائم اور نسل پرستانہ پالیسیوں کے احتساب کو یقینی بنایا جائے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل Amnesty International کی ویب سائٹ پر یہ رپورٹ موجود ہے، اسرائیل کی فلسطینیوں کے خلاف نسل پرستی: تسلط کا ظالمانہ نظام اور انسانیت کے خلاف جرم کے عنوان سے ایمنسٹی انٹرنیشنل Amnesty International نے اس نئی رپورٹ میں فلسطینیوں کے خلاف نسل پرستی کے جرم کے ارتکاب کے لیے اسرائیلی حکام Israeli authorities کو جوابدہ ہونے کا کہا ہے اور تحقیقات میں اس بات کی وضاحت کی درخواست کی ہے کہ اسرائیل فلسطینی عوام کے خلاف جبر اور تسلط کا نظام نافذ کرتا ہے جہاں بھی ان کے حقوق پر اس کا کنٹرول ہے۔ اس میں اسرائیل اور مقبوضہ فلسطینی علاقوں Occupied Palestinian Territories (OPT) میں رہنے والے فلسطینیوں کے ساتھ ساتھ دوسرے ممالک میں موجود بے گھر پناہ گزین بھی شامل ہیں۔
یہ ایک جامع رپورٹ Comprehensive Report ہے، جس میں اسرائیل کا فلسطینیوں کے خلاف نسل پرستی Cruel System، تسلط Domination اور انسانیت کے خلاف جرائم Crime Against Humanity کے ظالمانہ نظام کو مکمل واضح کیا ہے ، یہ رپورٹ بتاتی ہے کہ کس طرح فلسطینیوں کی زمینوں اور املاک پر بڑے پیمانے پر قبضے، غیر قانونی قتل، زبردستی منتقلی، نقل و حرکت پر سخت پابندیاں، اور فلسطینیوں کی قومیت اور شہریت سے انکار سب کچھ ہے۔ ایک ایسے نظام کے اجزاء جو بین الاقوامی قانون کے تحت نسل پرستی کے مترادف ہیں۔
اس نظام کو ان خلاف ورزیوں کے ذریعے برقرار رکھا جاتا ہے جسے ایمنسٹی انٹرنیشنل نے نسل پرستی کو انسانیت کے خلاف جرم قرار دیا، ایمنسٹی انٹرنیشنل بین الاقوامی فوجداری عدالت International Criminal Court (ICC) سے مقبوضہ فلسطینی علاقوں (OPT) میں اپنی موجودہ تحقیقات میں نسل پرستی کے جرم پر غور کرنے کا مطالبہ کر رہی ہے اور تمام ریاستوں سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ ان لامحدود جرائم کے مرتکب افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے عالمی دائرہ اختیار Universal Jurisdiction کا استعمال کریں۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے سیکرٹری جنرل Agnès Callamard کا کہنا ہے کہ "ہماری رپورٹ اسرائیل کی نسل پرست حکومت کی اصل عزائم کو واضح کررہی ہے کہ وہ کیسے غزہ، مشرقی یروشلم اور مغربی کنارے کے باقی تمام کے ساتھ موجودہ اسرائیلی علاقوں میں رہنے والے فلسطینیوں کے ساتھ ایک انتہائی کمتر نسلی گروہ کے طور پر سلوک روا رکھتے ہیں اور فلسطینیوں کو منظم طریقے سے ان کے حقوق سے محروم رکھا جاتا ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی رپورٹ وضح کرنے کے عمل میں اسرائیل کے زیر کنٹرول تمام علاقوں میں علیحدگی، تصرف پسندی اور جبری بے دخلی کی ظالمانہ پالیسیاں و کو اضح طور پر نسل پرستی کے مترادف پایا ہے۔ اب یہ عالمی برادری کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کا تدارک کریں۔ اس وقت فلسطینیوں کے لیے مقبوضہ فلسطینی علاقوں OPT کے اندر اور باہر سفر کرنے کی دشواری ان فلسطینیوں کی بے بسی اور ایک مستقل اذیت ناک عمل ہے۔ ان کا ہر اقدام اسرائیلی فوج کی منظوری سے ہی مشروط ہے، حتی کہ ان فلسطینیوں کے لئے روزمرہ کے معمولات کے لئے گھروں سے نکلنے کا مطلب ہے کہ انہیں انہیں ان پرتشدد چیک پوسٹ یا معاملات سے سامنا کرنا پڑے گا۔ نسل پرستی apartheid کے خلاف بین الاقوامی دنیا کا ردعمل International Response کو اب صرف مذمت اور بے بنیاد الفاظ تک محدود نہیں رہنا چاہیے۔ جب تک ہم اس کی بنیادی وجوہات سے نمٹ نہیں لیتے، فلسطینی اور اسرائیلی تشدد کے معاملے میں جکڑے ہی رہیں گے جس نے اب تک بہت سی انسانی زندگیوں کو تباہ کردیا ہے۔” ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے چند چیدہ چیدہ نکات یہ ہیں۔
اسرائیل کی جانب سے بنائے گئے باقاعدہ ادارہ جاتی institutionalized اور تسلسل سے نسل پرستانہ جبر Racist Oppression کے ایسے نظام کا اسرائیل کے پاس یقینا کوئی جواز نہیں۔ ہے جو انہوں نے لاکھوں فلسطینیوں پر جبر کے تحت مسلط کیا ہوا ہے۔ اس دنیا میں نسل پرستی کی کوئی جگہ نہیں ہے، اور جو چند ممالک جو اسرائیل کے لیے اس موقع پر نرم گوشی رکھیں گے یقینا آنے والے وقت میں وہ خود کو تاریخ کے غلط رخ پر پائیں گے۔ وہ حکومتیں جو اسرائیل کو ہتھیاروں کی فراہمی جاری رکھے ہوئے ہیں اور اقوام متحدہ میں اسے جوابدہی سے بچا رہی ہیں، اصلا وہ سب نسل پرستی کے نظام کی حمایت کر رہی ہیں، بین الاقوامی قانونی نظام کو نقصان پہنچا رہی ہیں، اور فلسطینی عوام کے مصائب کو بڑھا رہی ہیں۔ بین الاقوامی برادری کو اسرائیل کی نسل پرستی کی حقیقت کا سامنا کرنا چاہیے، اور انصاف کے لیے ایسے بہت سے راستوں کی اختیار کرنا چاہیے جو شرمناک طور آج تک اوجھل تگے یا رکھے جاتے تھے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی اس رپورٹ کے نتائج فلسطینی، اسرائیلی اور بین الاقوامی این جی اوز کے کام پر منحصر ہوگا، جنہوں نے اسرائیل Israel Territory اور Occupied Palestine territory کے خطوں میں نسل پرستی کے عمل کو دیکھا ہے ۔
نسل پرستی کی نشاندہی کرنا Identifying apartheidاسرائیل کی جانب سے نسل پرستی کا نظام ایک نسلی گروہ کے طور پر دوسرے پر جبر اور تسلط کا باقاعدہ Institutionalized نظام ہے۔ یہ انسانی حقوق Human Rights کی سنگین خلاف ورزی ہے جو عوامی بین الاقوامی قانون Public International Law میں ممنوع ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی وسیع تحقیق Extensive Research اور قانونی تجزیہ Legal Analysis، جو بیرونی غیر جانبدار ماہرین کی مشاورت سے کیا گیا ہے، جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ اسرائیل فلسطینیوں کے خلاف قوانین، پالیسیوں اور عملی طریقوں کے ذریعے ایسا نظام نافذ کرتا ہے جو ان کے ساتھ طویل تسلسل کے ساتھ ظالمانہ امتیازی سلوک Cruel Discriminatory Treatmen کو یقینی بنارہا ہے۔ بین الاقوامی فوجداری قوانین International Criminal Law میں ایسی تمام مخصوص غیر قانونی کارروائیاں جو جبر اور تسلط کے نظام کے اندر اس کو برقرار رکھنے کی نیت سے کی جاتی ہیں، نسل پرستی اور انسانیت کے خلاف جرم کا درجہ رکھتی ہیں۔ یہ کارروائیاں نسل پرستانہ کنونشن Apartheid Convention سمجھی جاتی ہیں جن میں غیر قانونی قتل، تشدد، زبردستی منتقلی،Unlawful killing, torture, forcible transfer, اور بنیادی حقوق اور بنیادی آزادی سے انکار شامل ہیں۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اسرائیل کے زیر انتظام تمام علاقوں Israel Controls Area میں نسل پرستی کے کنونشن میں ممنوعہ کارروائیوں Proscribed Acts کو دستاویزی documented شکل دی ہے، جہاں اسرائیل کی نسبت مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں زیادہ تسلسل سے پرتشدد واقعات ہوتے ہیں۔ اسرائیلی حکام فلسطینیوں کو ان کے بنیادی حقوق اور آزادیوں سے دانستہ طور پر دور رکھنے کے لیے متعدد اقدامات کرتے ہیں، بشمول مقبوضہ فلسطینی علاقوں OPT میں نقل و حرکت پر سخت پابندیاں، اسرائیل میں فلسطینی آبادیوں میں دائمی امتیازی کم سرمایہ کاری، اور پناہ گزینوں کی واپسی کے حق سے انکار وغیرہ وغیرہ ، ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ میں اسرائیل اور مقبوضہ فلسطینی علاقوں دونوں میں فلسطینیوں کی زبردستی منتقلی، انتظامی حراست، تشدد، اور غیر قانونی قتل کو بھی دستاویز کیا گیا ہے۔ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق یہ کارروائیاں فلسطینی آبادی کے خلاف منظم اور وسیع پیمانے پر کیے جانے والے حملوں کا حصہ ہیں (Systematic and widespread attack directed against the Palestinian population) اور تسلسل سے جبر اور تسلط کے نظام کو برقرار رکھنے کے ارادے سے ہیں۔ اس لیے وہ نسل پرستی کے اس عمل کا انسانیت کے خلاف اپنے قانونی اور نظام سے مدد لیتے ہیں۔
فلسطینی مظاہرین کا غیر قانونی قتل شاید اس بات کی سب سے واضح مثال ہے کہ کس طرح اسرائیلی حکام جمود کو برقرار رکھنے کے لیے ممنوعہ کارروائیوں کا استعمال کرتے ہیں۔ سنہء 2018 میں جب غزہ میں فلسطینیوں نے اسرائیل کے ساتھ سرحدوں پر ہفتہ وار احتجاج کرنا شروع کیا، جس میں پناہ گزینوں کی واپسی کے حق اور ناکہ بندی کے خاتمے کا مطالبہ کیا گیا تھا تو احتجاج شروع ہونے سے پہلے ہی سینئر اسرائیلی حکام نے خبردار کیا کہ دیوار کے قریب آنے والے فلسطینیوں کو گولی مار دی جائے گی۔ سنہء 2019 کے آخر تک اسرائیلی فورسز نے 46 بچوں سمیت 214 فلسطینی شہریوں کو قتل کیا ہے۔ فلسطینیوں کی آبادیات کا خطرہ سمجھا جانا Palestinians treated as a demographic threat۔سنہء 1948 میں اپنے قیام کے بعد سے ہی اسرائیل یہودی آبادی کی اکثریت کو قائم کرنے اور پھر اسے برقرار رکھنے، اور یہودی اسرائیلیوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے زمین اور وسائل پر زیادہ سے زیادہ کنٹرول کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ سنہء 1967 میں اسرائیل نے اس پالیسی کو مغربی کنارے West Bank اور غزہ کی پٹی Gaza Strp تک بڑھا دیا۔ آج اسرائیل کے زیر کنٹرول تمام علاقوں میں اسرائیلی انتظامی نظم و نسق کا مقصد یہودی اسرائیلیوں فایدہ پہنچانا اور فلسطینیوں کو نقصان پہنچانا ہے، اسی بنیاد پر فلسطینی پناہ گزینوں کو ان جگہوں سے باہر رکھا جا رہا ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل اپنی رپورٹ میں یہ کہتی ہے کہ بظاہر دنیا کے سامنے یہودی، فلسطینیوں کی طرح، حق خود ارادیت کا دعویٰ کرتے ہیں، اور اسرائیل کی "یہودی ریاست” Jewish Estate کی خواہش کو چیلنج نہیں کر,رہے مگر اس طرح کے عمل سے اسرائیل اپنے آپ کو "یہودی ریاست” کا لیبل لگا کر اپنے ظلم اور جبری تسلط کے ارادے کی نشاندہی کررہا ہے۔ یکے بعد دیگرے ہر اسرائیلی حکومت نے فلسطینیوں کو آبادیاتی خطرہ سمجھا، اور اسرائیل اور مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں ان کی موجودگی اور زمین تک رسائی کو کنٹرول اور کم کرنے کے لیے اقدامات نافذ کیے ہیں۔ یہ آبادیاتی اہداف مشرقی یروشلم East Jerusalem سمیت اسرائیل اور مغربی کنارے West Bank کے علاقوں کو "یہودی بنانے” (Judaize areas) کے سرکاری منصوبوں سے اچھی طرح سے واضح ہیں، جو ہزاروں فلسطینیوں کو زبردستی منتقلی کے خطرے میں ڈال رہے ہیں۔
سرحدوں کے بغیر ظلم۔ Oppression without borderسنہء 1947 تا سنہء 1949 اور سنہء 1967 کی جنگوں نے اسرائیل کی مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں جاری فوجی حکمرانی اور علاقے کے اندر علیحدہ قانونی اور انتظامی حکومتوں کی تشکیل نے فلسطینی برادریوں کو الگ الگ کر دیا ہے اور انہیں یہودی اسرائیلیوں سے بھی الگ کر دیا ہے۔ فلسطینیوں کو جغرافیائی اور سیاسی طور پر ٹکڑے ٹکڑے کر دیا گیا ہے، اور وہ اپنی حیثیت اور جہاں رہتے ہیں اس کے لحاظ سے مختلف درجوں میں آج امتیازی سلوک کا سامنا کرتے ہیں۔اسرائیل کے زیر انتظام مقبوضہ فلسطینی علاقوں کے فلسطینی شہری کسی درجے میں غزہ میں رہنے والے فلسطینیوں کی نسبت کچھ بہت حالات میں ہیں، لیکن بالمجموع ایمنسٹی انٹرنیشنل کی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ تمام فلسطینی ایک ہی اعلیٰ نظام کے تابع ہیں۔ تمام علاقوں میں فلسطینیوں کے ساتھ اسرائیل کا سلوک ایک ہی مقصد کے تحت ہے: زمین اور وسائل کی تقسیم میں یہودی اسرائیلیوں کو مراعات دینا، اور فلسطینیوں کی موجودگی کو کم ازکم کرنا اور زمین تک ان کی رسائی کو کم سے کم کرنا۔ اسرائیلی حکام فلسطینیوں کے ساتھ ایک کمتر نسلی گروہ کے طور پر برتاؤ کرتے ہیں جہاں انہیں غیر یہودی عرب Non-Jewish, Arab status حیثیت سے دیکھا جاتا ہے۔
یہ نسلی امتیاز ان قوانین میں شامل ہے جو پورے اسرائیل اور مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں فلسطینیوں کو متاثر کرتے ہیں۔مثال کے طور پر اسرائیل کے فلسطینی شہریوں کو قومیت سے محروم کر دیا جاتا ہے، جہاں وہ یہودی اسرائیلیوں سے قانونی طور پر برابر شہری نہیں ہوتے، مغربی کنارے اور غزہ میں اسرائیل نے سنہء 1967 سے آبادی کی رجسٹری کو کنٹرول کیا ہوا ہے، وہاں پر پیدا ہونے والے فلسطینیوں کے پاس کوئی شہریت نہیں ہے اور زیادہ تر کو بے وطن Stateless ہی سمجھا جاتا ہے، جہاں اصلا اسرائیلی حکومت ہے تو وہاں کے فلسطینیوں کے پاس کوئی شہریت نہیں جہاں اسرائیلی شناختی کارڈ کی ضرورت ہوتی ہے۔فلسطینی پناہ گزینوں اور ان کی اولادوں کو جو سنہء 1947 اور سنہء 1949 یا سنہء 1967 کی جنگوں کے تنازعات میں اپنے گھروں سے بے گھر ہوئے تھے، ان فلسطینیوں کو ان کی سابقہ رہائش گاہوں پر واپس جانے کے حق سے محروم رکھا جا رہا ہے۔ وہاں کے پناہ گزینوں کو اسرائیل سے زبردستی انخلاء حقیقتا بین الاقوامی قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے جس نے لاکھوں افراد کو جبری طور پر بے گھر ہونے کے دائمی عذاب میں رکھا ہوا ہے۔
الحاق شدہ مشرقی یروشلم Annexed East Jerusalem میں فلسطینیوں کو شہریت کے بجائے صرف مستقل رہائش دی جاتی ہے اور یہ حیثیت بھی صرف نام کی ہے۔ سنہء 1967 سے لے کر اب تک اسرائیلی وزارت داخلہ Ministry of the Interior کی جانب سے 14,000 سے زیادہ فلسطینیوں کی رہائش گاہیں منسوخ ہو چکی ہیں، جس کے نتیجے میں ان کی زبردستی شہر سے باہر منتقلی ہوئی ہے۔کم شہری Lesser citizensاسرائیل کے فلسطینی شہری جو کہ مجموعی آبادی کا تقریباً 19 فیصد ہیں انہیںاسرائیل حکام کی جانب سے کئی طرح کے امتیازی سلوک کا سامنا ہے۔ سنہء 2018 میں اسرائیل نے فلسطینیوں کے ساتھ امتیازی سلوک کو باقاعدہ ایک آئینی قانون میں ڈھالا، جس نے پہلی بار اسرائیل کو خصوصی طور پر "یہودی لوگوں کی قومی ریاست” (Nation state of the Jewish people) طور پر شامل کیا۔ یہ قانون یہودی بستیوں کی تعمیر کو بھی فروغ دیتا ہے اور سرکاری زبان کے طور پر عربی کی حیثیت کو گھٹاتا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ اسرائیلی حکام کس طرح نسل پرستانہ زمینوں پر قبضے اور زمین کی تقسیم، منصوبہ بندی اور زوننگ پر امتیازی قوانین کے جال کے نتیجے میں فلسطینیوں کو اسرائیل کی 80 فیصد سرکاری اراضی لیز پر دینے سے مؤثر طریقے سے روک دیا گیا ہے۔
جنوبی اسرائیل کے Negev/Naqab علاقے، جسے "بدو النقب” بھی کہا جاتا ہے اس کی صورتحال اس بات کی ایک اہم مثال ہے کہ کس طرح اسرائیل کی منصوبہ بندی اور تعمیراتی پالیسیاں جان بوجھ کر فلسطینیوں کو اپنے آبائی علاقوں سے بے دخل کرتی ہیں۔ سنہء 1948 کے بعد سے اسرائیلی حکام نے فلسطینی قبائلی علاقے "بدو النقب” کو "یہودی بنانے” کے لیے مختلف پالیسیاں اپنائی ہیں، جن میں بڑے علاقوں کو قدرتی ذخائر یا فوجی فائرنگ زوں کے علاقوں کے طور پر نامزد کرنا، اور یہودی آبادی کو بڑھانے کے لیے اہداف کا تعین کرنا شامل ہے۔ اس خطے "بدو النقب” میں 35 فلسطینی بدو قبائل دیہات آباد تھے، جن کی تعداد تقریباً 68,000 افراد پر مشتمل ہے، اس وقت اسرائیل کی طرف سے یہ تمام لوگ "ناقابل شناخت” ہیں، صدیوں سے بسنے والی یہ ہزارہا لوگ جنہیں اسرائیلی ریاست قبول نہیں کرہی تو یہ افراد بجلی اور پانی کی سپلائی سے منقطع ہیں اور ان کے گھروں کو بار بار مسمار کرنے کے لئے نشانہ بنایاجاتا ہے۔ چونکہ دیہات کی کوئی سرکاری حیثیت نہیں ہے، اس لیے ان کے مکینوں کو بھی سیاسی شرکت پر پابندیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور وہ صحت کی رسائی اور تعلیم کے حصول تک رسائی نہیں رکھتے۔
ان حالات نے وہاں کے بہت سے مقامی لوگوں کو اپنے گھر اور گاؤں چھوڑنے پر مجبور کر دیا ہے، جو کہ زبردستی منتقلی forcible transfer کے مترادف ہے۔اسرائیل کے فلسطینی شہریوں کے ساتھ کئی دہائیوں کے دانستہ طور پر غیر مساوی سلوک نے انہیں یہودی اسرائیلیوں کے مقابلے میں مسلسل معاشی طور پر پسماندہ رکھا ہوا ہے۔ یہ ریاستی وسائل کی صریح امتیازی تقسیم سے بڑھتا ہے: ایک حالیہ مثال حکومت کا کوویڈ 19 بحالی پیکیج ہے، جس میں سے صرف 1.7 فیصد فلسطینی مقامی حکام کو دیا گیا۔
تصرف Dispossessionفلسطینیوں کی ان کے گھروں سے بے دخلی اور بے گھر کرنا اسرائیل کے نسل پرستانہ نظام Apartheid System کا ایک اہم ستون ہے۔ اسرائیل کے قیام کے بعد سے اسرائیلی ریاست نے فلسطینیوں کے خلاف بڑے پیمانے پر اور ظالمانہ طریقوں سے فلسطینیوں کی اراضی پر قبضے کیے ہیں، اور فلسطینیوں کو چھوٹے چھوٹے علاقوں میں رہنے پر مجبور کرنے کے لیے بے شمار قوانین اور پالیسیوں کا نفاذ جاری رکھا ہوا ہے۔ سنہء 1948 کے بعد سے اسرائیل نے اپنے دائرہ اختیار اور موثر کنٹرول کے تحت تمام علاقوں میں لاکھوں فلسطینیوں کے مکانات اور دیگر املاک کو مسمار کیا ہے، بدو النقب کی طرح، مشرقی یروشلم اور مقبوضہ فلسطینی علاقے OPT کے "علاقے سی” (Area C) میں مقامی فلسطینی شہری مکمل طور پر اسرائیلی کنٹرول میں رہتے ہیں۔ فلسطینی حکام ان علاقوں میں فلسطینیوں کو تعمیراتی اجازت نامے دینے سے انکار کرتے ہیں اور انہیں غیر قانونی تعمیرات پر مجبور کرتے ہیں جنہیں بار بار گرایا جاتا ہے۔
فلسطینی مقبوضہ علاقے OPT میں، غیر قانونی اسرائیلی بستیوں کی مسلسل توسیع صورتحال کو مزید خراب کرتی ہے۔ مقبوضہ فلسطینی علاقوں OPT میں اسرائیلی بستیوں کی تعمیر سنہء 1967 سے حکومت کی پالیسی رہی ہے۔ اور آج ان اسرائیلی بستیوں میں مغربی کنارے West Bank کی 10فیصد اراضی شامل ہوچکی ہے، اور مشرقی یروشلم East Jerusalem میں فلسطینیوں کی تقریباً 38فیصد اراضی شامل ہوچکی ہے، جو سنہء 1967 اور پھر سنہء 2017 کے درمیان ضبط کی گئی تھی۔مشرقی یروشلم میں فلسطینی محلوں کو اکثر اسرائیلی آبادکار تنظیموں کے ذریعے نشانہ بنایا جاتا ہے جو اسرائیلی حکومت کی مکمل حمایت کے ساتھ فلسطینی خاندانوں کو بے گھر کرنے اور ان کے گھر آباد کاروں کے حوالے کرنے کے لیے کام کرتی ہیں۔ ایسا ہی ایک معاملہ شیخ جراح بستی کا جو ، مئی سنہء 2021 سے متواتر مظاہروں کا مقام رہا ہے کیونکہ وہاں مقامی فلسطینی خاندان اپنے گھروں کو آباد رکھنے کے لئے مقدمات لڑ رہے ہیں۔
مزاحمتی تحریک کی پابندیاں Draconian movement restrictionsسنہء 1990 کی دہائی کے وسط سے اسرائیلی حکام نے مقبوضہ فلسطینی علاقوں OPT میں فلسطینیوں کی نقل و حرکت پر تیزی سے سخت پابندیاں عائد کر دی تھیں۔ فوجی چوکیوں، روڈ بلاکس، باڑ اور دیگر ڈھانچے کا ایک مکمل جال ان مقبوضہ فلسطینی علاقوں OPT کے اندر فلسطینیوں کی نقل و حرکت کو کنٹرول کرتا ہے، اور اسرائیل یا بیرون ملک ان فلسطینیوں کے سفر پر پابندی لگاتا ہے۔ جہاں پر ایک 700 کلومیٹر کی باڑ ہے، جسے اسرائیل ابھی تک بڑھا رہا ہے، جہاں پر فلسطینی برادریوں کو "فوجی علاقوں” کے اندر الگ تھلگ کر دیا گیا ہے، وہاں کے مقامی فلسطینی جب بھی اپنے گھروں میں داخل ہوتے ہیں یا باہر جاتے ہیں تو انہیں متعدد خصوصی اجازت نامے حاصل کرنا ہوتے ہیں۔ غزہ پٹی Gaza Strip میں اس وقت 20 لاکھ سے زیادہ فلسطینی اسرائیلی ناکہ بندی کے نیچے رہتے ہیں جس نے ایک شدید انسانی بحران پیدا کر دیا ہے۔ غزہ کے فلسطینیوں کے لیے بیرون ملک یا مقبوضہ فلسطینی علاقوں OPT کے باقی حصوں میں سفر کرنا تقریباً ناممکن ہے، اور وہ مکمل طور پر باقی دنیا سے الگ ہیں۔
فلسطینی مقبوضہ علاقوں OPT میں اجازت نامے حاصل کرنے کا نظام فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کے ڈھٹائی سے زیادہ امتیازی سلوک کی علامت ہے۔ کیونکہ فلسطینی تو ناکہ بندی میں بند ہیں، چوکیوں پر گھنٹوں پھنسے رہتے ہیں،انہیں ہر روز گھر سے نکلنے کے لئے اجازت ناموں کی ضرورت ہے، جبکہ اسرائیلی شہری اور آباد کار اپنی مرضی کے مطابق ادھر ادھر گھوم سکتے ہیں، ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ان تمام اسرائیلی سیکورٹی جوازات کا جائزہ لیا جسے اسرائیل فلسطینیوں کے ساتھ اپنے سلوک کی بنیاد قرار دیتا ہے۔ رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ اگرچہ اسرائیل کی کچھ پالیسیاں جائز سیکورٹی مقاصد کی تکمیل کے لیے بنائی گئی ہیں، لیکن ان کا نفاذ انتہائی غیر متناسب اور امتیازی طریقے سے کیا گیا ہے جو بین الاقوامی قانون کی تعمیل کرنے میں ناکام ہے۔ دیگر پالیسیوں کی سیکورٹی کی بھی قطعی طور پر کوئی معقول بنیاد نہیں ہے، اور واضح طور پر جبر اور غلبے کے ارادے سے ہی تشکیل دی گئی ہیں
ایمنسٹی انٹرنیشنل متعدد مخصوص سفارشات Numerous Specific recommendations فراہم کرتا ہے کہ کس طرح اسرائیلی حکام نسل پرستی کے نظام اور امتیازی سلوک، علیحدگی اور جبر کو ختم کر سکتے ہیں جو اسے برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل پہلے اقدام کے طور پر فلسطینیوں کے گھروں کو مسمار کرنے اور جبری بے دخلی کے ظالمانہ عمل کو ختم کرنے کا مطالبہ کر رہی ہے کہ اسرائیل کو بین الاقوامی انسانی حقوق اور انسانی حقوق کے اصولوں کے مطابق اسرائیل اور مقبوضہ فلسطینی علاقوں OPT میں تمام فلسطینیوں کو مساوی حقوق دینے چاہئیں۔ اسے فلسطینی پناہ گزینوں اور ان کی اولاد کے اپنے گھروں کو واپس جانے کے حق کو تسلیم کرنا چاہیے جہاں وہ یا ان کے خاندان کبھی رہتے تھے، اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور انسانیت کے خلاف جرائم کے متاثرین کو مکمل معاوضہ فراہم کرنا چاہیے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ درج خلاف ورزیوں کے پیمانے اور سنگینی اسرائیل اور مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں انسانی حقوق کے بحران کے بارے میں بین الاقوامی برادری International Community’s کے نقطہ نظر میں زبردست تبدیلی کا مطالبہ کرتی ہے۔ تمام ریاستیں بین الاقوامی قانون Universal Jurisdiction کے تحت نسل پرستی کے جرم کے ارتکاب کا معقول طور پر مشتبہ افراد پر عالمگیر دائرہ اختیار استعمال کر سکتی ہیں، اور وہ ریاستیں جو نسل پرستی کے کنونشن کی فریق ہیں ان پر ایسا کرنے کی ذمہ داری ہے۔اسرائیل کو نسل پرستی کے نظام کو ختم کرنا چاہیے اور فلسطینیوں کے ساتھ مساوی حقوق اور وقار کے ساتھ انسانوں جیسا سلوک کرنا شروع کرنا چاہیے۔ جب تک ایسا نہیں ہوتا، امن اور سلامتی اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے لیے یکساں طور پر کبھی قائم نہیں ہوسکے گی۔