امریکہ میں پرائمری اسکولوں کا تعلیمی معیار

ایلیمنٹری سکول جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ ہیں، کیریئر ایجوکیشن پر بھرپور توجہ مرکوز کی جاتی ہے

وفاقی فنڈنگ وصول کرنے والے سکولوں پر لازم ہے کہ وہ خصوصی بچوں کو تعلیم کے مساوی مواقع فراہم کریں

پرائمری تعلیم کا مضبوط نظام ہر ملک کے لیے اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ یہی وہ مرحلہ ہوتا ہے جب بچوں کے لیے بہتر مستقبل کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے۔ بدقسمتی سے غریب یا ترقی پذیر ممالک وسائل کی کمی کے باعث اپنے بنیادی تعلیمی نظام میں زیادہ سرمایہ کاری نہیں کر پاتے اس لئے ان ممالک میں سہولتوں اور ماہر تدریسی عملے کے فقدان ہے جس کے باعث پیشہ ورانہ زندگی کے لیے بچوں کے رحجان کا تعین کا جا سکتا ہے نہ ہی ان کی صلاحیتوں کو بہتر انداز میں نکھارا جاتا ہے۔

اس کے برعکس امیر یا ترقی یافتہ ملکوں میں بنیادی تعلیم کا مضبوط نظام اور ڈھانچہ موجود ہے جہاں بچوں کو کار آمد شہری بنانے اور اُن کے رحجان و شوق کے مطابق تعلیمی عمل یقینی بنایا جاتا ہے، ذیل کی سطور میں امریکہ کے بنیادی تعلیم کے نظام کی خصوصیات پیش کی جا رہی ہیں۔

حال ہی میں سوشل میڈیا پر امریکی ریاست مشی گن میں واقع لیونارڈ ایلیمنٹری سکول کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں سکول میں تعلیم و تدریس کے عمل کے بارے میں تفصیلی طور پر بتایا گیا ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ امریکہ میں بچوں کے تعلیم کے حق پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جاتا اور یہ یقینی بنایا جاتا ہے کہ سکول جانے کی عمر تک پہنچنے والا کوئی بچہ تعلیم سے محروم نہ رہے۔ اسی طرح سکولوں میں بچوں کی رازداری کا بھی بہت خیال رکھا جاتا ہے اور اگر سکول یا تعلیمی ضرورت کے علاوہ بچوں کی کوئی ویڈیو یا تصویر بنانی ہو تو والدین سے اجازت لینا پڑتی ہے جب کہ اسکول انتظامیہ بھی نہیں چاہتی کہ ویڈیو ریکارڈنگ یا تصاویر بنائے جانے کے دوران بچوں کی معمول کی کوئی سرگرمی یا تعلیم متاثر ہو۔

لیونارڈ ایلیمنٹری سکول کی پرنسپل ڈاکٹر ایرن ڈیٹمر بتاتی ہیں کہ اُن کے سکول میں مجموعی طور پر چار سو طلبہ زیر تعلیم ہیں۔ اس وقت ہر جماعت یا کلاس بیس سے اٹھائیس طلباء پر مشتمل ہے تاہم جماعت کا حجم سالانہ داخلے پر منحصر ہوتا ہے۔ سکول میں تدریس کا دورانیہ یومیہ سات گھنٹے ہے، یعنی صبح نو بجے سے شام چار بچے تک بچوں کو تعلیم دی جاتی ہے اور پورا دن ٹیچرز بچوں کے ساتھ موجود رہتی ہیں۔

سکو ل کے کلاس روم جدید ٹیکنالوجی سے لیس ہیں۔ ایپل ٹی وی موجود ہیں۔ ہر بچے کے پاس آئی پیڈ ہے۔ ٹیچرز کے پاس پڑھانے کے لیے Macbooks ہیں۔ اسی طرح سکول میں لائیو براڈ کاسٹنگ کی سہولت بھی موجود ہے۔ ایرن ڈیٹمر کے مطابق یہ ٹیکنالوجی بچوں کو کمرہ جماعت میں بیٹھے فنگر پرنٹس پر نصاب اور دنیا بھر کے دیگر متعلقہ متن یا مواد تک رسائی مہیا کرتی ہے۔ سکول میں ایک میڈیا سنٹر بھی قائم ہے جہاں بچے تحقیق ، سائنس، ڈیزائن، آرٹ، ،ایجادات اور مسائل کے حل کے حوالے سے سیکھتے ہیں۔ ایرن ڈیٹمر بتاتی ہیںکہ اُن کے سکول میں بچوں کی کیریئر ایجوکیشن پر بھرپور توجہ دی جاتی ہے اور اُن امکانات کو سامنے لایا جاتا ہے جن میں بچے نشو و نما پائیں اور افرادی قوت میں شامل ہو سکیں۔

سکول میں ایک کیفے ٹیریا بھی ہے، جہاں بچے بیٹھ کر دوپہر کا کھانا کھاتے ہیں جس کے لئے انہیں بیس منٹ کا وقت دیا جاتا ہے، بچوں کو کھانا سکول کی طرف سے بھی فراہم کیا جاتا ہے جس کی معمولی فیس وصول کی جاتی ہے۔ تاہم یہ والدین کی مرضی ہے کہ وہ بچوں کو کھانا خود ساتھ بھیجیں یا سکول کی طرف سے فراہم کردہ سہولت سے فائدہ اٹھائیں۔ کیفے ٹیریا میں مختلف ممالک کے جھنڈے بھی لہرا رہے ہیں جن کے بارے میں پرنسپل کا کہنا ہے کہ یہ مختلف پس منظر کے حامل خاندانوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔

سکول میں 29 سے زائد زبانوں میں پڑھایا جاتا ہے اور26فیصد بچے کثیر الجہتی زبانیں بولتے ہیں۔ ڈاکٹر ایرن کے مطابق جو طلبہ ملک میں نئے ہوتے ہیں اور انگریزی زبان سیکھ رہے ہوتے ہیں اُن کے لئے انگلش ڈویلپمنٹ پروگرام کا اہتمام کیا جاتا ہے۔

لیونارڈ ایلیمنٹری سکول میں جم کی سہولت بھی موجود ہے جہاں بچے جسمانی سرگرمیاںکرتے ہیں۔ اس کے لئے انہیں ہفتے میں 45 منٹ تک کا وقت دیا جاتا ہے۔ جسمانی تعلیم کے ٹیچر مسٹر گرانٹ بچوں کو صحت اور فٹنس کی افادیت اور طریقوں کے بارے میں بتاتے ہیں۔ بچوں کو ایسی عادات سکھائی جاتی ہیں جو ان کی صحت کیلئے مفید ہوں۔

ڈاکٹر ایرن ڈیٹمرکے مطابق اُن کے سکول میں ریڈنگ، رائٹنگ کے علاوہ پڑھائے جانے والے بنیادی مضامین ریاضی ،سائنس اور معاشرتی علوم شامل ہیں۔ ریاست مشی کن میں تعلیمی نصاب کے بنیادی معیارات وہی ہیں جو ملک کی زیادہ تر ریاستوں میں پڑھایا جاتا ہے۔

ملک میں کوئی قومی نصاب نہیں ہے اور نہ ہی پڑھانے کا کوئی خاص طریقہ کار متعین ہے۔ ریاست کا ہر ضلع اس نصاب کا انتخاب یا اطلاق کر سکتا ہے جو وہ سمجھے کہ طلباء کی ضرورتوں کو پورا کرے گا۔ Typicalسکولوں کی فنڈنگ سے متعلق ڈاکٹر ایرن بتاتی ہیں کہ اس کے مختلف ذرائع ہیں، یہ مختلف قسم کے ٹیکسز کے ذریعے بھی ہوتی ہے اور وفاقی فنڈز بھی ملتے ہیں، ہر ڈسٹرکٹ شاگرد کے حساب سے سالانہ فنڈز بھی مختص کرتا ہے جس کی شرح حتمی نہیں ہے تاہم یہ عموماً چھ سے سات ہزار ڈالر فی طالب علم ہوتا ہے۔

امتحانات کے بارے میں ڈاکٹر ایرن ڈیٹمر بتاتی ہیں کہ طلباء کو ریاست کے وضع کردہ معیارات کے مطابق اسسمنٹ کے ذریعے اگلے گریڈ بھیجا جاتا ہے۔ یہاں بچے پاس فیل نہیں ہوتے۔ اگر کوئی بچہ اگلے گریڈ کے لیے مقررہ لیول حاصل نہ کر سکے تو پھر اس کے والدین سے مشاورت کی جاتی ہے اور اس کے مطابق کوئی فیصلہ کیاجا تا ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ ہم بچوں کے لیے مستقبل کا دروازہ کھولتے ہیں تاکہ وہ اچھی اور بہتر زندگی بسر کر سکے۔

امریکہ میں خصوصی بچوں کی تعلیم و تربیت کا بھی خاص خیال رکھا جاتا ہے اور اس کے لیے باقاعدہ نظام موجود ہے۔ وفاقی فنڈنگ وصول کرنے والے سکولوں پر لازم ہے کہ وہ خصوصی بچوں کو تعلیم کے مساوی مواقع فراہم کریں۔ ملک میں 1990ء میں Individuals with Disabilities Education Act کے تحت ایسے طالب علموں کی تلاش کی ذمہ داری تعلیمی اداروں اور حکومت پر ہے جو کسی قسم کی معذوری میں مبتلا ہوں۔ اس مقصد کے لیے ’’چائلڈ ہنٹ‘‘ کا ادارہ بچوں کی انفرادی ضروریات اور کمزوریوں کا اندازہ لگاتا ہے جس کے بعد اسی مطابقت سے انہیں مختلف لرننگ پروگراموں میں شامل کیا جاتا ہے تاکہ انہیں کارآمد شہری بنایا جا سکے۔

خصوصی بچوں کی تعلیم و تربیت سے وابستہ نکولس زوپان بتاتے ہیں کہ مختلف معذوریوں کا شکار بچوں کو اُن کی انفرادی ضروریات کے تحت ان پروگرامزمیں شامل کیا جاتا ہے۔ عام طورپر انہیں باقی بچوں کے ساتھ بھی پڑھایا جاتا ہے۔ تاہم کچھ گھنٹے انہیں الگ سے خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔

معذوری کا شکار بچوں کی ضروریات کو دیکھتے ہوئے ان کے لیے الگ سے کلاسز کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے۔ خصوصی بچوں کے لیے پروگرامز میں سے ایک معذوری سے شدید طور پر متاثرہ بچوں کے لیے مخصوص ہے جوکائنڈرگارڈن سے چھٹی جماعت تک ہوتا ہے جس میں اُن بچوں کو عام بچوں سے الگ سے تعلیم دی جاتی ہے اور یہ باقی بچوں سے لنچ اور بریک کے دوران ہی مل پاتے ہیں۔

سوسن ایجرٹن نامی ایک خاتون بتاتی ہیں کہ ان کے دونوں بچے معذوری کا شکار ہیں، انہیں لکھنے ،پڑھنے اور بات سمجھنے میں دشواری کا سامنا ہے لیکن اس کے باوجود وہ نہ صرف ہائی سکول میں پڑھ رہے ہیں بلکہ آئس کی ایک دکان پر کچھ گھنٹے کام بھی کرتے ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ سکول کے خصوصی پروگراموں کی وجہ سے میرے دونوں بچوں میں بہت بہتری آئی ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ جسمانی معذوری اور اس کے باعث طالب علم کی ضروریات کا تعین ایک قدرے آسان عمل ہے لیکن سیکھنے کی ذہنی معذوریوں اور اُن کی ضروریات کے تعین کے لئے اکثر پیشہ وارانہ مدد درکار ہو سکتی ہے تاکہ ایسے بچے بہتر زندگی گزار سکیں۔

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button