کیا اسٹیٹ بینک گروی رکھ دیا گیا؟

حکومت نے سینیٹ سے اسٹیٹ بینک ترمیمی بل ایک ووٹ کی برتری سے منظور کرا لیا ہے۔ بل کے حق میں حکومت کو 43 ووٹ ملے جب کہ اپوزیشن جماعتیں 42 ووٹ حاصل کر سکیں، یوں حکومت کو ایک ووٹ کی برتری حاصل ہونے پر چیئرمین سینیٹ نے اسٹیٹ بینک ترمیمی بل کو منظور قرار دے دیا۔ اس بل کی منظوری حکومت کے لئے پارلیمنٹ میں ایک بڑی کامیابی ہے کیونکہ اس کے سینیٹرز کی تعداد اپوزیشن جماعتوں کے مقابلے میں کم ہے، اپوزیشن جماعتوں کو ایوان بالا میں مجموعی اکثریت حاصل ہے مگر عددی برتری رکھنے کے باوجود اپوزیشن جماعتیں سٹیٹ بینک ترمیمی بل کو سینٹ سے منظور ہونے سے روکنے میں ناکام ثابت ہوئی ہیں۔

یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کو پارلیمنٹ میں عددی برتری کے باوجود ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے بلکہ اس سے پہلے بھی چیئرمین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد اور پھر چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں بھی وہ اس طرح کی صورت حال کا سامنا کر چکی ہیں۔ دیکھا جائے تو پاکستان پیپلزپارٹی کی سینیٹ میں 20 نشستیں ہیں، مسلم لیگ ن کی 18، جے یو آئی کی 5، عوامی نیشنل پارٹی کی 2، بلوچستان نیشنل پارٹی کی 2 نشستیں ہیں اپوزیشن کی مجموعی نشستیں 53 بنتی ہیں اس اعتبار سے اپوزیشن کو ایوان بالا میں حکومت پر چھ نشستوں کی برتری ہے مگر اس کے باوجود اپوزیشن سٹیٹ بینک ترمیمی بل کو سینیٹ میں منظور ہونے سے روک نہیں سکی ہے۔

اپوزیشن جماعتیں دعویٰ کرتی ہیں کہ حکومت کے بہت سے اراکین صوبائی، قومی اور سینیٹ ان کے ساتھ رابطے میں ہیں اور ضرورت پڑنے پر وہ اراکین حکومت کی بجائے اپوزیشن جماعتوں کا ساتھ دیں گے، تاہم جب اپوزیشن جماعتوں کو ضرورت پڑتی ہے کہ وہ پارلیمنٹ یا سینیٹ میں بل کی منظوری میں حکومت کا راستہ روک سکیں تو ان کے اپنے ووٹ کم پڑ جاتے ہیں۔ اس کا مطلب واضح ہے کہ اپوزیشن جماعتیں ابھی تک حکومت کے خلاف متحد نہیں ہو سکیں جس کا حکومت بھر پور فائدہ اٹھا رہی ہے۔

اسٹیٹ بینک ترمیمی بل کی ایوان سے منظوری سے حکومت کو صرف سیاسی طور پر فائدہ ہی نہیں ہوا بلکہ معاشی لحاظ سے بھی اس کے لئے یہ ایک اہم پیشرفت ہے،کیونکہ آئی ایم ایف کے قرض پروگرام کی بحالی اس بل کی منظوری سے ہی مشروط تھی، اسٹیٹ بینک ترمیمی بل بروقت منظور نہ ہونے کے باعث 28جنوری کو آئی ایم ایف بورڈ کا اجلاس ملتوی کر دیا گیا تھا جو اب 2 فروری کو ہوگا جس میں پاکستان کی چھٹے جائزہ مشن رپورٹ پرغورکیا جائے گا۔

حقیقت یہ ہے کہ اسٹیٹ بینک ترمیمی بل کے تحت اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو خود مختاری دی گئی ہے جب کہ بینک سے لیے جانے والے حکومتی قرضوں پر بھی مکمل پابندی ہوگی،اسی طرح اب اسٹیٹ بینک حکومت، یا حکومتی ادارے یا کسی اور ادارے کو براہ راست نہ تو قرض دے گا اور نہ ہی اس سلسلے میں کوئی ضمانت دے گا، مرکزی بینک کے گورنر، ڈپٹی گورنرز، نان ایگزیکٹو ڈائریکٹرز اور مانیٹری پالیسی کمیٹی کے ارکان کی تقرری تین سال کی بجائے پانچ سال کی مدت کے لئے عمل میں لائی جائے گی اور وہ اپنی ابتدائی مدت ختم ہونے پر پانچ سال کی دوسری مدت کے لئے دوبارہ تعینات ہو سکیں گے، اسٹیٹ بینک کے ڈپٹی گورنرز کی تقرری وزیر خزانہ اور گورنر اسٹیٹ بینک کے درمیان مشاورت سے کی جائے گی جب کہ ان کا تقرر تین امیدواروں کے پینل سے ہوگا ۔

حکومتی مؤقف کے برعکس اپوزیشن جماعتوں کو اسٹیٹ بینک ترمیمی بل پر شدید تحفظات ہیں، اُن کا مؤقف ہے کہ اس بل سے مرکزی بینک کی خود مختاری ختم ہو جائے گی،اس بل کے تحت ملکی معیشت کا پورا نظام تبدیل ہو جائے گا، اسٹیٹ بینک سال میں چار بار رپورٹ دیتا تھا لیکن اب اسٹیٹ بینک سے پالیسی پرکوئی سوال نہیں ہو سکے گا یوں بل کی منظوری دراصل قومی سلامتی پر سمجھوتہ کرنے کے مترادف ہے۔

بعض معاشی ماہرین کا بھی کہنا ہے کہ اسٹیٹ بینک ترمیمی بل پاکستان کی خودمختاری کو گروی رکھنے کے مترادف ہے ، اس سے مالیاتی امور حکومتی کنٹرول سے نکل جائیں گے۔ اس بل کے بعد اسٹیٹ بینک میں حکومت کی کوئی نمائندگی نہیں ہوگی،مہنگائی کو کنٹرول کرنے کا مکمل اختیار بینک کے پاس آ جائے گا اور حکومت اس بات کی پابند ہوگی کہ وہ بیرونی قرضوں کی ادائیگی کو اپنی پہلی ترجیح بنائے ،یوں حکومت کی آمدن بیرونی قرضوں کی ادائیگی کے لیے چلی جائے گی تاہم حکومت ان الزامات کو مسترد کرتی ہے، اس کامؤقف ہے کہ اسٹیٹ بینک ترمیمی بل ملک کے وسیع تر مفاد میں ہے۔

اس بل کا بنیادی مقصد اسٹیٹ بینک کے اندر سیاسی اثر و رسوخ کو ختم کرنا ہے اور معاشی استحکام کے لئے ایسے اقدامات ناگزیر ہیں، وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین کہتے ہیں کہ اسٹیٹ بینک ترمیمی بل کے نفاذ سے حکومت اور اسٹیٹ بینک کے درمیان تعاون متاثر نہیں ہوگا اور نہ ہی فزیکل اینڈ مانیٹری پالیسی بورڈ تحلیل ہونے سے مشاورت کا عمل رکے گا۔اُن کا کہنا ہے کہ اسٹیٹ بینک مہنگائی کنٹرول کرنے کا مکمل طور پر ذمہ دار نہیں ہوگا تاہم وہ مہنگائی پر قابو پانے کے لئے حکومت کی مدد کرے گا۔اپوزیشن جماعتیں سینیٹ سے اس بل کو منظور نہ ہونے دینے کے بلند و بانگ دعوے تو کرتی رہی ہیں لیکن عملی طور پر وہ نہ تو اس حوالے سے متحد ہو سکیں اور نہ ہی انہوں نے کوئی مشترکہ لائحہ عمل تیار کیا جس کا نتیجہ سینیٹ میں بل پر رائے شماری میں اُن کی ناکامی کی صورت میں نکلا۔

سینیٹ سے منظور ہونے والے سٹیٹ بینک کے ترمیمی بل کا تیسرا اہم عنصر مرکزی بینک کی خود مختاری ہے۔ آزاد مرکزی بینک بھی ایک کتابی نظریہ ہے جسے ترقی یافتہ معیشتوں میں عملی طور پر ترک کر دیا گیا ہے۔ کورونا بحران کے دوران تمام ترقی یافتہ معیشتوں میں مرکزی بینکوں نے اپنی اپنی حکومتوں کے ساتھ قریبی تعاون سے کام کیا تاکہ حکومت کو بحران سے نکلنے میں مدد فراہم کی جا سکے۔

آج بینک آف انگلینڈ اور فیڈرل ریزرو کا تحریری دستور تو انفلیشن ٹارگٹنگ ہی ہے اور ایک انفلیشن ٹارگٹنگ مرکزی بینک کو اتنے بڑے تناسب سے رقوم کی فراہمی میں اضافہ نہیں کرنا چاہئے کیونکہ بینک کی کارکردگی تو افراط زر کے کنٹرول سے ناپی جانی ہے، لیکن تمام مرکزی بینکوں نے آنے والے افراط زر کی پرواہ کیے بغیر ریلیف پیکیج فراہم کرنے کے لیے اپنی حکومتوں کی مدد کی ہے۔ مرکزی بینک اور حکومت کے درمیان قریبی ہم آہنگی کے بغیر یہ کیسے ممکن ہے؟

ایک بار پھر، ہماری حکومت اور سٹیٹ بنک نے ایک ایسے نظریہ کا انتخاب کیا ہے جسے اس کے مبلغین خود ترک کر چکے ہیں۔ سٹیٹ بینک کے ترمیمی بل کے ساتھ اصل مسئلہ یہ ہے کہ یہ نصابی تدریسی نظریات پر مبنی ہے جو اقوام عالم مدتوں پہلے ترک کر چکی ہیں۔ یہ بل ہمارے معاشی حالات سے مطابقت رکھتا ہے اور نہ ہی ترقی یافتہ معیشتوں کے طرز عمل کو خاطر میں لاتا ہے۔ جو نظریات دنیا بھر میں متروک ہو چکے، پاکستان کو ان نظریات کی تجربہ گاہ بنایا جا رہا ہے۔

تحریک انصاف کی حکومت کے ذہن میں یہ بات بیٹھ گئی ہے کہ اگر سٹیٹ بینک کو خود مختار بنا دیا جائے تو قرضوں کی بھاری بوجھ میں کمی سمیت مہنگائی کے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ اس ضمن میں اپنے تئیں قدم اٹھانے کی بجائے حکومت کو چاہئے تھا کہ تمام جماعتیں کی رائے کا ا حترام کیا جاتا تو ملکی مفاد کو مدنظر رکھ کر مشترکہ فیصلہ کیا جاتا مگر ایسا نہیں کیا گیا اس کا نقصان یہ ہو گا کہ تحریک انصاف کی حکومت ختم ہوتے ہی یہ ترمیمی بل اپنی اہمیت کھو دے گا اور نئی آنے والی حکومت اس بل کو ایک بار پھر تبدیل کر دے گی۔ پل پل تبدیل ہوتی معاشی پالیسی کا نقصان ہے کہ ملکی معیشت سنبھل نہیں رہی ہے اہل سیاست کو منفی طرز عمل کو ترک کر مثبت انداز میں آگے بڑھنا ہو گا۔

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button