مجہول انداز میں قرآن پڑھانے والے اسکول اساتذہ

وزیر اعظم عمران خان کی خصوصی توجہ کے باعث یکساں قومی نصاب کا نفاذ ممکن ہو رہا ہے، اس نصاب کی بنیادی دو خصوصیات ہیں۔ ایک یہ کہ اگریزی کی بجائے قومی زبان اردو کو پرائمری تک کی تعلیم کے حصول لازمی قرار دیا گیا ہے جبکہ دوسرا یہ کہ نصاب میں اسلامی قرآن و حدیث اور اسلامیات کو ترجیحاً نصاب کا حصہ بنایا گیا ہے۔

ترجمہ قرآن کریم اور سیرت کے مضامین لازمی ہوں گے اس کا فائدہ یہ ہو گا کہ مادری زبان میں پڑھنے کی وجہ سے طلباء کی تخلیقی صلاحتیں مضبوط ہوں گی اور اسلامی علوم پر ان کی دسترس ہو گی۔ لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یکساں قومی نصاب کے نفاذ سے اہم کام تاحال نہیں کیا گیا ہے۔

سرکاری و نجی تعلیمی اداروں کی صورتحال یہ ہے کہ قرآن کو مجہول انداز میں پڑھنے والے تجوید کے استاذ بنے بیٹھے ہیں اس سے طلبا کو فائدے کی بجائے نقصان ہو رہا ہے۔ ہمارے بچے دوسری اور تیسری کلاس کے طالب علم ہیں وہ تجوید کے ساتھ قرآن پڑھے ہوئے ہیں کیونکہ ہم ابتدائی عمر میں ہی بچوں کو قرآن کی تعلیم دلاتے ہیں انہوں نے بتایا کہ ہماری ٹیچر ہمیں غلط قرآن پڑھاتی ہیں میں نے بچے کو تھوڑا کریدا تو معلوم ہوا بچے کی بات درست ہے کیونکہ تجوید کے ساتھ قرآن کریم پڑھا ہوا مجہول انداز میں پڑھنے والے کی غلطی فوری پکڑ لیتا ہے، بچے کی زبانی یہ سن کر بہت دکھ ہوا اور میں اس سوچ میں پڑ گیا کہ قومی نصاب کو پورے ملک میں رائج کرنے کا تو شوق تھا مگر اسے پڑھانے کیلئے جن اساتذہ کی ضرورت تھی اسے پورا نہیں کیا گیا۔

سوچنے کی بات یہ ہے کہ انگریزی کا استاذ الگ ہے سائنس، ریاضی حتی کہ ہر مضمون کا علیحدہ استاذ ہے تاہم اسلامیات اور قرآن کریم پڑھانے کیلئے علیحدہ سے استاذ مقرر کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی ہے۔ اساتذہ کے اس خلا کو پُر نہ کیا گیا تو طلباء مجہول لہجے میں قرآن پڑھتے رہیں گے جس کی تمام تر ذمہ داری حکومت پر عائد ہو گی۔

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button