پختون سماج میں پسند کی شادی
پاکستان کے اکثر علاقوں میں پسند کی شادی کا تصور نہیں ہے، اس ضمن میں ہم گاؤں اور شہری آبادی کو دو حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں، شہری آبادی میں کسی حد تک پسند کی شادی کا رجحان پایا جاتا ہے، کیونکہ کالج و یونیورسٹی میں مخلوط تعلیم کی وجہ سے ذہنی ہم آہنگی ہو جاتی ہے، تعلیم یافتہ ہونے کی وجہ سے ان کے والدین بھی جدید خیال کے حامی ہوتے ہیں تو شہر کے رہنے والوں کو بچوں کے پسند کی شادی کے فیصلے پر اعتراض نہیں ہوتا ہے۔
اس کے برعکس گاؤں دیہات میں اکثریت ایسے لڑکے اور لڑکیوں کی ہوتی ہے جو اپنی مرضی کے مطابق شادی نہیں کر سکتے ہیں، اگر گاؤں دیہات میں کسی نوجوان لڑکے کو لڑکی پسند آ گئی ہے یا لڑکی کو کوئی لڑکا پسند آ گیا ہے تو انہیں جرأت نہیں ہوتی ہے کہ وہ اپنے دل کی بات گھر والوں کے سامنے پیش کر سکیں۔ ایسے گھرانوں میں والدین جس جگہ پر شادی کر دیں بچوں کو وہ قبول کرنا پڑتا ہے۔
پختون سماج میں چونکہ روایات کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے اس لئے وہاں پر پسند کی شادی کا تصور بہت محدود ہے، کئی نوجوان جوڑوں کو ان کے والدین اور بھائیوں نے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ پسند کی شادی لڑکا کرے تب بھی اس کی گنجائش نہیں ہے تاہم اگر کسی لڑکی نے والدین کی مرضی کے خلاف نکاح کر لیا تو اسے زندہ گاڑھ دیا جاتا ہے۔ اکثر والدین کی طرف سے انتہائی اقدام کا یہ جواز پیش کیا جاتا ہے کہ بیٹی نے ان کی عزت خاک میں ملا دی ہے۔
نکاح ایک فریضہ ہے اور اسلام عاقل بالغ مرد وعورت کو یہ حق دیتا ہے کہ وہ اپنی مرضی سے نکاح کر سکیں۔ نکاح پر عزت کیسے خاک میں مل گئی ہاں اگر اس نے نکاح کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ اپنایا ہے تو والدین حق بجانب ہیں اور انہیں اعتراض کا حق حاصل ہے۔ آپ کی بیٹی یا بیٹا اگر آپ کی اجازت کے بغیر نکاح کرنے پر مجبور ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے ان کیلئے کوئی راستہ نہیں چھوڑا ہے۔ آپ نے انہیں مرضی کی جگہ شادی کی اجازت نہیں دی ہے یا پھر آپ کی سخت مزاجی کی وجہ سے انہیں امید ہی نہیں ہے کہ آپ انہیں سپورٹ کریں گے۔
آپ کے منفی طرزعمل نے نوجوان اولاد کو قدم اٹھانے پر مجبور کیا تو ایسے حالات میں یہ ہونا چاہئے کہ آپ ان کے فیصلے کو تسلیم کر کے انہیں دعا دیں کہ وہ اپنی ازدواجی زندگی میں خوش رہیں لیکن والدین اور بڑے بھائی درندے کا روپ دھار کر ان کی زندگی کے درپے ہو جاتے ہیں اور جوڑے کو موت کے گھاٹ اتارنے کے بعد انہیں چین آتا ہے۔
پختون سماج میں یہ مرض بہت حد تک پھیل چکا ہے، جو لڑکیاں پڑھ لکھ گئی ہیں وہ اپنی مرضی سے نکاح کرنا چاہتی ہیں مگر سماج انہیں اس کی اجازت نہیں دیتا ہے، والدین کی سختی اولاد کو بغاوت پر آمادہ کرتی ہے، سو زمانے کی تقاضوں کو دیکھیں اور ایسی بے جا پابندیاں عائد کرنے سے گریز کریں جس کی سماج اجازت دیتا ہے اور نہ اسلام۔ والدین اولاد کا بھلا چاہتے ہیں، پسند کی شادی کے ضمن میں بھی کہا جاتا ہے کہ بچوں کو اپنے نفع نقصان کا کیا پتہ ہے، یہ بات درست ہے کہ والدین کا تجربہ زیادہ ہوتا ہے انہیں نفع و نقصان کا بھی بخوبی علم ہوتا ہے لیکن اس مقصد کیلئے ضروری ہے کہ والدین بچوں کو اعتماد میں لیں، اگر آپ بچوں کو اعتماد میں لے کر انہیں سمجھائیں گے کہ جس جگہ آپ شادی کے خواہش مند ہیں وہاں یہ نقصانات ہو سکتے ہیں، قوی امید ہے کہ بچوں کو آپ کی بات سمجھ آ جائے گی اور وہ آپ کی رائے کے سامنے سرتسلیم خم کر دیں گے۔
باپ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ لڑکیوں کی شادی میں ان کی ماں سے معلوم کرنے کی کوشش کرے کہ لڑکیوں کو کوئی پسند ہے یا نہیں؟ عام طور پر ایسا ہوتا ہے کہ لڑکیاں اپنے قریبی رشتہ داروں اور کزنز کو پسند کرنے لگتی ہیں لیکن وہ اس کا اظہار نہیں کرتی ہیں، کیونکہ ان کی طرف سے محبت یا پسند کے اظہار کو سماج میں اچھا نہیں سمجھا جاتا ہے سو والدہ چونکہ بچیوں کے بہت قریب ہوتی ہے تو وہ ان سے جاننے کی کوشش کرے کہ انہیں کون پسند ہے؟ ممکن ہے پوچھنے سے آپ کا مسئلہ آسان ہو جائے اور لڑکی ایسی جگہ بتائے جو آپ کیلئے قابل قبول اور آپ کی بھی پسند ہو۔ اس صورت سے بہتر کوئی صورت نہیں ہو سکتی ہے۔
تاہم جب والدین کو معلوم ہو جائے کہ وہ کسی ایسے لڑکے کو پسند کرتی ہے جو خاندان سے باہر ہے اور والدین وہاں پر شادی نہیں کرنا چاہتے ہیں تو اس معاملے کو بھی سختی کی بجائے دانشمندی کے ساتھ حل کیا جا سکتا ہے، کیونکہ آپ کی سختی کی وجہ سے بچے بالعموم انتہائی اقدام اٹھانے پر آمادہ ہو جاتے ہیں وہ انتہائی اقدام گھر سے بھاگ کر شادی کرنے کے علاوہ اپنی جان کا خاتمہ بھی ہو سکتا ہے۔
اکثر والدین ایک ہی طرح کی غلطی کر رہے ہوتے ہیں ان کا کہنا ہوتا ہے کہ چونکہ انہوں نے عمر بھر تکالیف اٹھا کر بچوں کی دیکھ بھال اور تعلیمی ضروریات کا خیال رکھا ہے سو بچے آج ان کی توقعات پورا اتریں، تو خوب جان لیں کہ خدا تعالیٰ نے ہر بچے کا مزاج مختلف رکھا ہے، سارے بچے ایک ذہن کے مالک نہیں ہوتے ہیں، کئی بچوں کی طبیعت میں اپنی بات منوانے کا مادہ ہوتا ہے وہ چاہتے ہیں کہ والدین ان کی بات مانیں لہذا ایسی صورت میں بڑوں کو چاہئے کہ سنجیدگی اور لچک کا مظاہرہ کریں تاکہ آپ کے بچے آپ کی آنکھوں کے سامنے رہیں۔ بچوں پر اپنی سوچ مسلط کرنا دانشمندی نہیں ہے، کوشش یہ ہونی چاہئے کہ آپ اپنی زندگی میں بچوں کی خوشیاں دیکھ سکیں۔