لمحہ موجود سے لطف اٹھائیں

ہم اپنی زندگی کا بیشتر حصہ جد و جہد میں گزار دیتے ہیں، فیملی کی ضروریات پوری کرنے میں اس قدر مگن ہوتے ہیں کہ اپنی ذات سے بے نیاز ہو جاتے ہیں، جبکہ کم آمدن طبقہ تو اسی فکر میں مصروف رہتا ہے کہ کسی طریقے سے وہ اپنی فیملی کیلئے دو وقت کی روٹی، مکان کا کرایہ، بچوں کی تعلیم کیلئے فیسوں کا بندوبست کر سکے۔ اکثر لوگ اسی فکر میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں کہ ان کی زندگی اور ان سے وابستہ لوگوں کی زندگی کی گاڑی چلتی رہے۔ زندگی کی اس دوڑ میں اکثر لوگ تفریح کے مواقع گنوا دیتے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ جس قدر ممکن ہو سکے وقت کو ضروریات پوری کرنے میں استعمال کر لیں۔ ایسے لوگوں کے ذہن میں یہ بات بیٹھ جاتی ہے کہ دولت اور آسائشات جمع کرنے کے بعد ہی زندگی سے لطف اٹھایا جا سکتا ہے۔ زندگی کی پچاس بہاریں دیکھنے کے بعد بھی جب توقع کے مطابق آسائشات حاصل نہیں ہو پاتی ہیں تو بیتے برسوں پر ملال ہوتا ہے کہ کاش! زندگی سے لطف اٹھاتے اور جو وسائل موجود تھے انہی میں رہتے ہوئے زندگی کے امور تشکیل دیتے۔
بہت لوگ زندگی سے لطف اٹھانے کیلئے دولت کو ضروری تصور کرتے ہیں حالانکہ ایسی باتوں میں کوئی صداقت نہیں ہے، اس لئے کہ یہ وہ پابندیاں ہیں جو آپ نے خود اپنے اوپر لاگو کر رکھی ہیں، بلکہ مڈل کلاس طبقہ کو تو ایسی سہولت میسر ہیں امیر افراد جس کا تصور بھی نہیں کر سکتے ہیں۔ کیا کوئی امیر شخص سر راہ چلتے ریڑھی والے سے کوئی چیز لے کر کھاتا ہے؟ ہرگز نہیں کیونکہ وہ اس عمل کو اپنی شان کے خلاف تصور کرتا ہے، اس نے اپنی زندگی کیلئے جو معیار سیٹ کر رکھا ہے اس سے باہر نکل کر سوچنے کیلئے وہ تیار نہیں ہے، نہ ہی اس کا سٹیس اسے اجازت دیتا ہے۔ اس کے برعکس غریب لوگ بہت خوش قسمت ہیں، جب دل چاہا اپنے آس پاس دیکھا جو چیز پسند آئی اسے تناول کر لیا۔ یہی زندگی کا اصل مزہ ہے اور فطرت کے قریب بھی ہے جس زندگی میں تکلفات جمع ہو جائیں وہ زندگی نہیں بلکہ قید ہے۔ آپ نے کبھی کسی ریڑھی کے قریب جا کر وہاں کھڑے لوگوں کی خوشی محسوس کی ہے جو کھاتے ہوئے اس چکر میں نہیں پڑتے کہ انہیں کون دیکھ رہا ہے۔
لمحہ موجود سے لطف اندوز ہونے کی کوشش کریں اگر آپ کے وسائل اس کے متحمل نہیں ہو سکتے تو پھر کئی طریقے ہیں کہ آپ کم وسائل کے باوجود زندگی سے بھرپور لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔ میں نے اپنے ایک دوست کے معدے کے مسائل کو دیکھ کر اسے مسلسل بنیادوں پر پھل کھانے کا مشورہ دیا کہ اللہ تعالیٰ نے پھلوں کے اندر بیماریوں سے بچاؤ کا سامان رکھا ہے کوشش کریں کہ ہر موسم کا پھل کھائیں، جو رقم آپ نے ادویات پر خرچ کرنی ہے وہی پھل کھانے پر لگائیں تو یہ آپ کی صحت کیلئے زیادہ بہتر ہے، اس نے کہا کہ بھائی یہ بات کہنے کی حد تک تو اچھی معلوم ہوتی ہے لیکن آج کے دور میں پھل کیسے افورڈ کریں؟ میں نے کہا کہ آپ کی بات درست ہے، تاہم اگر آپ کلو کے حساب سے پھل خریدنے کی سکت نہیں رکھتے ہیں تو کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ پھل فروش کے پاس جائیں اور اسے بیس تیس روپے دیں اور اس کے بدلے ایک آدھ امرود لے لیں، دو چار روز اتنی ہی رقم خرچ کر کے ایک آدھ سیب یا دوسرا کوئی پھل لے لیں، یوں کم خرچ کر کے آپ اپنی ضرورت کی چیز بھی لے سکتے ہیں اور لمحہ موجود سے لطف اندوز بھی ہو سکتے ہیں۔ اس نے جب یہ سنا تو کہا کہ یہ تو بہترین آئیڈیا ہے۔ اگر آپ یہ سوچ رہے ہیں کہ جب آپ کے پاس بہت زیادہ دولت آئے گی تو تب آپ اپنی یا فیملی کی خواہشات پوری کریں گے تو یاد رکھیں شاید پھر کبھی بھی آپ کی خواہش پوری نہ ہو سکے۔
کئی لوگ اپنی جوانی کا زمانہ کمانے میں لگا دیتے ہیں اس دوران وہ فیملی کو وقت دے پاتے ہیں اور نہ ہی اپنی ذات کیلئے ان کے پاس کوئی وقت ہوتا ہے، ایسے افراد اگر دولت جمع کرنے میں کامیاب ہو بھی جائیں تو وہ عمر کے اس حصے میں پہنچ چکے ہوتے ہیں کہ وہ اپنی کمائی سے خود مستفید نہیں ہو سکتے، ان کی زندگی بھر کی جمع پونجی دوسروں کے ہاتھوں میں چلی جاتی ہے جو بے رحمی کے ساتھ اسے دونوں ہاتھوں سے خرچ کرتے ہیں، اس لئے اسباب اختیار کریں اور اپنی فیملی کیلئے پلاننگ بھی کریں مگر اپنی زندگی سے لطف اٹھائیں۔ یہ اسی صورت ممکن ہو سکتا ہے جب آپ لمحہ موجود کو سامنے رکھ کر زندگی کے معاملات کو ترتیب دیں گے۔

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button