مدینہ کی مارکیٹ پر یہودیوں کی اجارہ داری
مدینہ منورہ کے کاروبار میں یہودی پیش پیش تھے اور شام کے مختلف علاقوں میں ان کی تجارتی کوٹھیاں اور مراکز تھے جہاں سے وہ ایمپورٹ ایکسپورٹ کا کاروبار کیا کرتے تھے
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں کی اجارہ داری ختم کرنے کیلئے ایک متبادل بازار قائم کیا،لوگوں کو مخاطب کر کے اعلان کیا گیا کہ یہ تمہارا اپنا بازار ہے، یہاں تم سے کوئی ظالمانہ ٹیکس نہیں لے گا
مدینہ منورہ کی زمین زخیرز ہونے کی وجہ سے وہاں کی بڑی بڑی پیداوار کھجور، جو ، انگور اور انجیر تھی اور کچھ پھل جن میں انار اور کیلا بہت نمایاں ہیں، کثرت سے پیدا ہوتے تھے، گندم کی پیداوار بہت کم تھی۔ عام طور پر لوگوں کی غذا جَو ہوا کرتی تھی۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ کی جو مشہور روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل خاندان نے کبھی مسلسل کئی دن تک گندم کا استعمال نہیں کیا۔ اس کی ایک بڑی وجہ شاید یہ بھی تھی کہ گندم مدینہ منورہ کی بڑی پیدوار نہیں تھی۔ گندم کا بیشتر حصہ خیبر سے لایا جاتا تھا ۔ یہ دور سے لانے کی وجہ سے مہنگی بھی تھی اور کم بھی۔ مصنوعات میں زیادہ تر کپڑا، ہتھیار، لکڑی کا سامان شامل تھا ۔ انگور کی پیداوار کی وجہ سے شراب کی پیداوار بھی تھی۔ اکثر شراب خانے یہودیوں کے تھے۔ وہ خود بھی شراب کا کاروبار کرتے تھے ان سے لے کر قرب و جوار میں شراب کا کاروبار کیا کرتے تھے۔ جب شراب حرام قرار پائی تو مہاجرین اور انصار دونوں میں شراب کا کاروبار کرنے والوں نے شراب کے کاروبار سے ہر قسم کا تعلق ختم کر دیا۔ چونکہ مدینہ منورہ میں مارکیٹ ختم ہو گئی تھی اس لیے غیر مسلموں نے بھی ایک ایک کر کے شراب کا کاروبار ختم کر دیا تھا۔
مدینہ منورہ میں جو افراد زمینوں کے مالک تھے ان میں سے کچھ لوگ بڑے بڑے قطعوں کے اور بعض چھوٹے چھوٹے قطعوں کے مالک تھے۔ چھوٹے قطعوں کے مالک اپنی زمینوں پر خود کام کرتے تھے۔ بڑی زمینوں کے مالک مختلف طریقوں سے اپنی زمینوں پر کام کرایا کرتے تھے۔ کچھ لوگ مزدوری دے کر کام کراتے تھے۔ مختلف طریقے عرب میں رائج تھے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مزارعت کی بعض شکلوں کو ناجائز قرار دیا اور بعض کی اجازت دی۔ جن شکلوں میں سود، دھوکہ، استحصال یا اس طرح کی کوئی خرابی پائی جاتی تھی، ان شکلوں کو آپ نے ناجائز قرار دیا اور جن شکلوں میں استحصال یا بار نہیں پایا جاتا تھا ان کی آپ نے اجازت دے دی۔ مدینہ منورہ کی زمین اکثر بارانی تھی اس لیے سال میں ایک ہی فصل ہوا کرتی تھی۔ کہیں کہیں کنویں بھی تھے جن سے رہٹ اور اونٹ کے ذریعے پانی نکالا جاتا تھا۔ جن باغات میں کنویں تھے ان میں سال میں دو فصلیں بھی ہو جایا کرتی تھیں۔ اکثر باغات میں سال میں ایک ہی فصل ہوتی تھی۔
دستکاری میں گھریلو دستکاری بھی تھی اور اجتماعی دستکاری بھی ۔ گھریلو دستکاری میں عموماً کپڑے ، سوت کاتنے ، دھاگے بنانے کا کاروبار ہوتا تھا جو بڑے کاروبار تھے اور جس میں ایک سے زائد لوگ کام کرتے تھے جس کو آپ فیکٹری یا کارخانہ کہہ سکتے ہیں۔ اس میں زراعت، نجاری اور لوہاری کے آلات بنائے جاتے تھے۔ یہ سرگرمی عموماً بنوقینقاع کے ہاتھ میں تھی۔ قرب و جوار کی آبادیاں زرعی آبادیاں تھیں اس لیے وہاں آلات زراعت کے کام کی خاصی گنجائش تھی، مدینہ منورہ کے تاجر ایمپورٹ ایکسپورٹ کا کام بھی کرتے تھے۔ شام سے کپڑا اور استعمال کی دیگر اشیاء منگوایا کرتے تھے۔ گندم کا بیشتر حصہ اردن سے آیا کرتا تھا۔ کاروبار میں یہود بھی پیش پیش رہتے تھے اور شام کے مختلف علاقوں میں ان کی تجارتی کوٹھیاں اور مراکز تھے جہاں سے وہ ایمپورٹ ایکسپورٹ کا کاروبار کیا کرتے تھے۔ بنو نضیر کے یہودی اس کام میں بڑے نمایاں تھے۔
ہجرت کے چند مہینے یا ایک ڈیڑھ سال کے بعد جب مسلمان بڑی تنگ دستی کے عالم میں تھے۔ یہودی کا ایک بڑا تجارتی قافلہ آیا۔ اس میں خوشبوئیں، جواہرات اور سمندری سامان غالباً موتی وغیرہ مدینہ کے بازار میں آ کر اُترا۔ مسلمان خواتین اور نوجوانوں نے حسرت کی ایک نظر سے ان سب چیزوں کو دیکھا اور دل میں محسوس کیا کہ تمام مال و دولت یہودیوں کے پاس ہے۔ مسلمانوں کے پاس کچھ نہیں ہے۔ اس وقت مسلمانوں کی تسلی کے لیے قرآن پاک کی یہ آیت نازل ہوئی: ترجمہ:ہم نے آپ کو قرآن اور سات مثانی عطا کیے ہیں جو بہت بڑی نعمت ہے۔ ان کی اس عارضی نعمت پر آپ زیادہ دل میلا نہ کریں۔ یہ ایک وقتی چیز ہے جو اللہ تعالیٰ نے آزمائش کی خاطر ان کو دی ہے۔
غرض یہ تجارت بیشتر یہودیوں کی تجارت تھی۔ جس پر ان کا قبضہ تھا۔ انصار یعنی اوس اور خزرج کے بہت سے لوگ ان کے مقروض تھے اور ان کی زمینیں ایک ایک کر کے یہودیوں کے قبضے میں جا رہی تھیں۔ اس صورت حال پر مہاجرین کے آنے سے بہت فرق پڑا۔ مہاجرین تجارت کے بڑے ماہر تھے۔ مکہ مکرمہ میں اصل کام تجارت تھا۔ مہاجرین میں بڑے بڑے نامی گرامی تاجر تھے۔ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ، سیدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ، حضرت زبیر بن العوامؓ، یہ بڑے بڑے صحابہ تھے اور تجارت کے فن میں طاق تھے۔ جب انہوں نے مدینہ منورہ کے بازاروں میں تجارت شروع کی تو یہودیوں کا زور بازار پر سے کم ہوتا چلا گیا اور ان کی بالادستی متاثر ہوئی۔
حضرت عبدالرحمن بن عوف نے بنو قینقاع کے بازار میں ہی کاروبار شروع کیا تھا۔ وہاں کے تاجروں نے بازار پر اپنی اجارہ داری بنائی ہوئی تھی۔ ایک شخص ابو رافع تھا۔ وہ تاجر حجاز کہلاتا تھا ۔ پورے حجاز کا سب سے بڑا تاجر تھا۔ بنوقینقاع کے پورے بازار بلکہ مدینہ منورہ کے بازار پر اس کا کنٹرول تھا۔ جو قیمت وہ قرار دیتا تھا وہی قیمت بازار کی ہوتی تھی۔ سب یہودی تاجر متحد ہو کر اس کے فیصلوں کی پابندی کیا کرتے تھے۔ اس طرح یہ لوگ ایکا کر کے کسی غیر یہودی تاجر کو بازار میں پنپنے نہیں دیتے تھے۔ اس نے دو پیمانے بنا رکھے تھے۔ ایک پیمانہ دینے کے لیے اور ایک لینے کے لیے ہوتا تھا۔ اسلام نے بعد میں دو پیمانے بنائے رکھنے کی ممانعت کر دی۔
حضرت عبدالرحمن بن عوف پہلے تاجر تھے جنہوں نے ابو رافع تاجر حجاز کی اس بالادستی کو ختم کر دیا۔ اور ایک ایک کر کے اس کے غلط تجارتی طریقوں کو ختم کیا اور اس کے کنٹرول کو کمزور کیا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بڑا اہم فیصلہ یہ کیا کہ مدینہ منورہ میں مسلمانوں کے لیے ایک متبادل بازار قائم ہو جائے اور یہودیوں کی شرارتوں اور اجارہ داری سے مسلمانوں کو نجات مل جائے۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف تو دنیاوی اعتبار سے بھی بڑا اونچا مقام رکھتے تھے۔ بڑی محترم شخصیت تھے ۔ اللہ نے وسائل بھی دیے تھے اور تجارت کی مہارت بھی دی تھی۔ ان کو شکست دینا اور ان کے کاروبار کو خراب کرنا تو یہودیوں کے لیے ممکن نہ تھا لیکن چھوٹے مسلمان تاجروں کو یا ایسے لوگوں کو، جن کا رسوخ کم تھا ، ان کو یہودی تاجر تنگ کیا کرتے تھے ۔خاص طور پر اپنے مسلمان خریداروں کو بھی یہودی دکاندار تنگ کیا کرتے تھے۔
ان ساری چیزوں کا سدباب کرنے کے لیے اور ایک متبادل تجارتی پلیٹ فارم قائم کرنے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بازار قائم کیا جس کے بارے میں آپؐ نے فرمایا کہ یہ تمہارا اپنا بازار ہے۔ اس میں کوئی بھی تمہارے ساتھ کمی یا زیادتی نہیںکرے گا۔ یہاں تم سے کوئی ظالمانہ ٹیکس نہیں لے گا۔ یہودی اپنے بازار میں بیٹھنے والے مسلمانوں سے غیر ضروری ٹیکس بھی لیا کرتے تھے اور ان پر طرح طرح کے مالی تاوان اور بوجھ ڈالا کرتے تھے۔ آپ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ گویا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نئے بازار میں کاروبار کرنے والے مسلمان تاجروں کے لیے ٹیکس ریبیٹ کا اعلان کیا کہ کوئی اضافی بوجھ تم پر نہیں ڈالا جائے گا۔ مزید فرمایا کہ جو شخص ہمارے اس بازار میں مال لا کر بیچے گا وہ اسی اجر کا مستحق ہو گا جس کا جہاد کرنے والا مجاہد مستحق ہوتا ہے۔ اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والا مسلمانوں کی آزادی کی ضمانت فراہم کرتا ہے۔ جو مسلمانوں کے بازار کو کامیاب بناتا ہے، وہ مسلمانوں کی معاشی آزادی کو یقینی بناتا ہے۔ مسلمانوں اور امت مسلمہ کی آزادی کو یقینی بنانے والا کوئی بھی عمل جہاد فی سبیل اللہ کے برابر ہے۔ اس کے برعکس آپ نے فرمایا کہ ہمارے اس بازار میں کوئی شخص اگر ذخیرہ اندوزی کرے گا تو اس کو اتنا ہی مجرم سمجھا جائے گا جس طرح کہ کتاب اللہ میں الحاد کرنے والا، کتاب اللہ کے معانی کو غلط بیان کرنے والا۔ جب بنو قینقاع اور بنو النضی کے خلاف کارروائی کا فیصلہ ہوا اور یہ طے ہوا کہ ان کو خیبر سے جلا وطن کر دیا جائے۔ اس وقت یہودیوں کے بہت سے سودی قرضے اور رقوم انصاری صحابہ پر واجب الادا تھیں۔ اس وقت سود مکمل حرام نہیں ہوا تھا۔ اب یہ مسئلہ پیدا ہوا کہ اگر یہودی خیبر سے چلے جاتے ہیں تو ان کی رقوم اور قرضوں کا کیا ہو گا۔ یہ معاملہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش ہوا تو آپؐ نے حکم دیا ، جس پر فقہا میں بڑی بحثیں ہوئی ہیں ۔ آپؐ نے دست مبارک سے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ‘ ضعو و تعجلو‘ یعنی اصل دعاوی میں تھوڑی سی کمی کر کے لے لو۔ یعنی اگر رقم ایک سال کے بعد واجب الادا ہے اور اس کی مالیت ایک لاکھ ہے تو پھر نوے ہزار لے لو اور آج وصول کر لو۔ اس حکم کے بارے میں فقہا کا کہنا یہ ہے کہ یہ حکم ربا کی مکمل حرمت سے پہلے کا ہے۔ اس لیے ربا کی حرمت کے بعد یہ حکم بھی منسوخ ہو گیا۔ یہ ایک وقتی فیصلہ تھا جو آپ نے ایک مسئلہ کے حل کے لیے فرمایا۔ اکثریت کی رائے یہی ہے۔ اس میں بھی ایک نوعیت کا منفی سود ہے۔ وقت کی قیمت ہے۔ قیمت میں وقت کی کمی کے مطابق کمی کرنا منفی سود ہی کے مترادف ہو گا۔ اس لیے اب حرمت سود کی آیت کے بعد فقہائے اسلام کی غالب ترین اکثریت کی رائے یہ ہے کہ ’ضعفو و تعجلو‘ پر عمل کرنا اب جائز نہیں ہے۔ بعض حضرات جو اقلیت میں ہیں ، ان کی اب بھی یہ رائے ہے کہ ’ضعفو و تعجلو‘ ، کے حکم پر آپس کی آزادانہ رضامندی سے عمل کیا جا سکتا ہے۔ اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صراحتاً اس کی ممانعت بعد میں نہیں فرمائی۔ اسی طرح کچھ یہودی ایسے تھے جن کی زمینیں دوسری آباد یوں اور بستیوں میں واقع تھیں۔ جب یہودی مدینہ منورہ سے نکلنے لگے تو انہوں نے شور مچایا کہ اب مختلف گائوں میں واقع ہماری زمینوں کا کیا ہو گا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا اور دوسرے فریقوں کا مؤقف سننے کے بعد فیصلہ فرمایا کہ ان زمینوں کو جبری طور فروخت کروا دیا جائے۔ اور جو شخص زمین کی قیمت یہودیوں کو دے دے وہ اس زمین کا مالک بن جائے۔ یہودیوں کو یہاں زمین رکھنے کی اجازت نہیں ۔ اس کی ایک وجہ تو شاید یہ تھی کہ یہودیوں نے وہ زمینیں ناجائز طور پر ہتھیائی تھیں۔ سودی کاروبار کے ذریعے قبضے میں لی تھیں۔ دوسرے عملاً اس سے بہت سی قباحتیں پیدا ہونے کا امکان تھا۔ ایک یہودی تاجر جو خیبر میں بیٹھا ہو اور مدینہ میں اس کی زمین ہو تو اس کو سازشیں کرنے کا بڑا موقع ملے گا، اس لیے بہتر یہی تھا کہ یہودی کو مدینہ سے لاتعلق کر دیا جائے۔