محمد بن سلمان کے حقیقی اسلام پسندانہ قوانین

سعودی عرب میں قدیم قبائل میں بیٹیوں اور بہنوں کو شادی سے روکنے کا رواج تھا ۔ اسے ‘ العضل یا الحجر’ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ شادیوں کو روکنے کی بنیادی وجہ بیٹی یا بہن کو خاندانی جائیداد باہر جانے سے روکنے یا خاندان کے کسی فرد سے بیٹی یا بہن کو منسوب کرنے کے لیے یہ طریقہ کار اپنایا جاتا تھا۔ یہ سلسلہ قریب سالوں تک سعودی عرب کے کئی قبائل میں رائج رہا ہے، لیکن سعودی عرب کی حالیہ حکومت میں ولی عہد محمد بن سلمان نے خواتین کے حقوق کے ضمن میں جو انقلابی اقدامات کئے ہیں ان میں سے ایک مقامی افراد کے خاندان کے سرپرستوں کی جانب سے لڑکیوں کی شادی میں بلا وجہ رکاوٹ ڈالنے پر قانون سازی بھی ہے۔

نئے قوانین میں سعودی وزارت انصاف نے متعدد ضوابط مقرر کیے ہیں-

1- وزارت انصاف لڑکی کی کمسنی کے باعث لڑکی کا نکاح فسخ کرسکتی ہے۔

2- وزارت انصاف ولی کی طرف سے زبردستی شادی کرنے کی صورت میں لڑکی کے رابطہ کرنے پر والدین سے مواخذہ اور لڑکی کی پسند سے شادی میں معاونت کرے گی۔

3- شادی سے محروم رکھنے کے رواج کی بیخ کنی کے لیے سعودی عدالتیں خود شادی سے محروم رکھی جانے والی لڑکیوں کے نکاح کے احکامات جاری کرے گی-

اس سلسلے میں سعودی عرب کے مختلف علاقوں میں صرف گذشتہ چار ماہ کے دوران 23 لڑکیوں نے الگ الگ تاریخوں میں شکایات درج کرائی تھیں کہ
’انہیں ان کے سرپرست جان بوجھ کر شادی سے محروم کیے ہوئے ہیں-‘
ان کے مطابق
’رشتے آتے ہیں مگر سرپرستوں کی جانب سے انہیں مسترد کردیا جاتا ہے-‘
سعودی عدالتوں نے ہر مقدمے کو الگ طریقے سے دیکھا اور سنا- ججوں نے تسلیم کیا کہ دعوی حق بجانب ہیں اور لڑکیوں کو جان بوجھ کر شادی کے حق سے محروم کرتے ہوئے سرپرستی کا ناجائز فائدہ اٹھایا جا رہا ہے، اور عدالتوں نے شادی سے محروم کی جانے والی 23 لڑکیوں کے نکاح کے احکامات جاری کیے ہیں- وزارت انصاف نے انتہائی سخت ہدایات دے رکھی ہیں کہ شادی سے محرومی کے مقدمات ترجیحی بنیاد پر تیزی سے نمٹائے جائیں-

اس سلسلے میں صرف دارلحکومت ریاض شہر میں 500 سے زیادہ آن لائن نکاح منعقد کیے گئے ہیں۔ شادی سے محرومی کا دعویٰ متاثرہ لڑکی خود بھی دائر کرسکتی یا اس کی ماں یا بہن بھی یہ دعوی پیش کرسکتی ہے- دعوی کے اندراج کے لیے منگیتر کو عدالت میں پیش کرنا بھی ضرور نہیں۔ اور مزید قانون میں یہ بھی طے کیا گیا ہے کہ شادی سے محرومی کا دعویٰ 30 روز کے اندر ہر حالت میں نمٹایا جانا ضروری ہے-انتہائی مجبوری کے تحت ہی مقررہ تاریخ میں تبدیلی کی جاسکتی ہے۔ تاریخ بڑھانے کی صورت میں قابل قبول وضاحت دینا ہوگی کہ ملتوی کرنے کا سبب کیا ہے اور دس روز سے زیادہ اس قسم کے کیس کا بھی وقت نہیں دیا جائے گا۔

پاکستان میں چند دن سے ہمارے مذہبی دوستوں کو سعودی عرب سے بہت شکایت ہورہی ہے، کیا کوئی دوست بتا سکتا ہے کہ جو منبروں پر بیٹھ کر اسلام میں عورتوں کے حقوق بیان کرتے ہیں، کبھی وہ لڑکیوں کو والدین کی مرضی کی خلاف اپنی پسند سے شادی کے لئے منبروں سے آواز اٹھائیں گے؟ جبکہ وہ خود جانتے ہیں کہ اللّٰہُ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پہلی شادی کا پیغام دینے والی ایک خود مختار عورت تھی اور اس نے یہ نکاح کا پیغام اپنی والدہ کی رضامندی کے خلاف بھیجا تھا۔ کیا وہ عہد رسالت میں خواتین کی مرضی سے یک طرفہ شادی و طلاق علیحدگی کے فیصلوں کو کبھی منبر سے بیان کریں گے یا مقامی روایت و ثقافت کو مذہب اور فطرت سے اونچا کرکے مذہب ثابت کرتے رہیں گے۔

ہمارے ہاں ایسا تو ممکن ہے کوئی لڑکی اگر معاشرتی طور پر کسی درجے میں خودمختار ہو تو وہ ایسا قدم اپنی مرضی سے اٹھا سکتی ہے مگر کلی طور پر اپنے والدین یا کسی کی نگرانی یا پرورش و کفالت میں رہنے والی لڑکیاں اپنے والدین سے اپنی شادی کے لئے نہیں کہہ سکتی اگر کہہ بھی دیں تب بھی ایسا کوئی موثر پلیٹ فارم موجود نہیں جہاں وہ شادی نہ ہونے کی صورت اپنی شکایت یا معاملہ پیش کرسکیں اور انہیں مکمل تحفظ بھی مل سکے۔ کیونکہ بہرحال والدین ہی ان معاملات کو کلی طور پر انجام دیتے ہیں اس لئے اکثر لڑکیاں گھروں سے بھاگ بھی جاتی ہیں۔ خیر بھاگنے والی لڑکیوں کے پس منظر میں کچھ اور عوامل بھی ہوسکتے ہیں ۔ مگر والدین یا کفالت کرنے والے کے علاوہ ریاستی سطح پر ایسی بچیوں کے لئے پاکستان میں کم ازکم کوئی پلیٹ فارم نہیں ہے۔ اور نہ ہی ہمارے مذہبی نمائندے اپنی دقیانوسیت کی وجہ سے اسلام کی اس اساس کو خود ماننے کے لئے تیار ہیں۔ گول مول دعوے تو کرلئے جاتے ہیں اور ہمارے ملک میں ایک اسلامی نظریاتی کونسل کا ڈھکوسلہ بھی موجود ہے، مگر عملا ایسا کوئی قانونی طریقہ یا معاشرتی سطح پر کوئی تشکیل موجود نہیں۔ ہے جو خصوصا گھروں میں رہنے والی لڑکیوں کی شادی کے مسائل کا تدارک کرسکے۔

اچھا یہ بات لکھنے کی ضرورت کیوں پیش آئی کہ ہمارے ہاں یعنی پاکستان میں کسی پلیٹ فارم کی کیوں ضرورت ہونی چاہئے؟
اصولا ہم ہمیشہ ہر بات میں مغرب سے اپنی معاشرتی زندگی کی روایات کو بہتر بتانے اور وہاں کی جنسی یا گھریلو زندگی کو ہر صورت رد کرتے ہیں، اس کے مقابل پاکستان میں عموما ریپ، ہراسگی اور بہت سارے جنسی بے اعتدالیوں یا جرائم کی وجہ وقت پر یا شادی نہ ہونا کہہ کر تو جان چھڑا لی جاتی ہے۔

مگر جب کوئی ملک یا معاشرہ کسی صورت خاندانی نظام کے کسی مخصوص اسٹرکچر کا قائل ہو اور وہاں پر پیش آنے والے بہت سارے مسائل کو مغرب کی عورت کی خود مختاری سے جوڑتا ہے یا وہاں کے معاشرے کو غیر مناسب جانتا ہے مگر اپنی معاشرت کی نا انصافیوں کے لئے فریقین کے لئے کسی نا انصافی کے لئے قوانین بنانے کا قائل نہ ہو تو وہ معاشرہ کیسے اپنی روایات کو برقرار رکھ سکتا ہے.

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button