ہندو کلچر بذریعہ فلم سعودی عرب پہنچ گیا
پاکستان اور ترکی کے فلم میکروں کی خدمات حاصل کرنے کی بجائے سعودی عرب کا بھارتی فلم میکروں کی خدمات حاصل کرنے سے ہندو کلچر سعودی عرب میں جڑیں مضبوط کر لے گا
عرب ممالک بشمول سعودی عرب جدت کے نام پر نت نئی اصلاحات متعارف کرا رہے ہیں۔
چند ماہ قبل ارض حجاز میں سینماؤں کا آغاز ہوا، اب فلمیں بنانے کیلئے بھارتی اداکاروں اور اداکاراؤں کی خدمت حاصل کر لی گئی ہیں، بھارت کے معروف اداکار سلمان خان اور شلپا شیٹی دیگر ایک سو کے قریب بھارتی اداکاروں کے ہمراہ سعودی عرب میں ہیں۔
بالی وڈ اداکار سلمان خان نے سعودی انٹرٹینمنٹ اتھارٹی کے سربراہ ملاقات کے بعد پریس کانفرنس کی ہے، سلمان خان نے سعودی عرب میں اپنی فلم کی شوٹنگ کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ سعودی شہریوں نے بھی سلمان خان کی مملک آمد پر خوشی کا اظہار کیا ہے۔
واضح رہے سعودی عرب میں گزشتہ ایک ماہ سے ’’ریاض سیزن‘‘ کے نام سے تفریحی پروگرام جاری ہے، جس میں سعودی عرب کے فنکاروں سمیت مختلف ممالک کے فنکار اپنے فن کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔العربیہ کی رپورٹ کے مطابق ایک ماہ میں 45لاکھ زائرین نے ’’ریاض سیزن‘‘ کا وزٹ کیا ہے جس میں سعودی عرب کے شہریوں کے ساتھ غیر ملکیوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی ہے۔
سلمان خان نے اپنے دورہ سعودی عرب کے موقع پرکہا ہے کہ انہیں سعودی عرب آنے پر بے انتہا خوشی ہے، بالی وڈ اداکار نے سعودیوں کے چہرے کی مسکراہٹ کا بالخصوص ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس مسکراہٹ سے زیادہ خوبصورت بات کیا ہوگی۔ بھارت کی معروف اداکارہ شلپا شیٹی نے بھی اس اہم موقع پر اظہار خیال کیاکہ وہ ریاض سیزن کے جمالیاتی پہلوؤں کو دیکھ کر بہت خوش ہیں۔
بھارتی اداکار سلمان خان کو دورہ سعودی عرب پر ایک اہم ترین اعزاز سے نوازا گیا ہے، سلمان خان کے دونوں ہاتھوں کے نشان لئے گئے ہیں جنہیں سعودی دارالحکومت کے سیاحتی اور تفریحی مقام بولیورڈ ریاض سٹی میں ’’وال آف فیم‘‘ پر لگایا جائے گا۔
سماجی امور کے ماہرین کا خیال ہے کہ فلم انڈسٹری کو پروموٹ کرنے کیلئے سعودی عرب کا بھارتی اداکاروں کی خدمات حاصل کرنا اور بھارت کی طرف جھکاؤ سے ہندو کلچر مملکت سعودی عرب میں در آئے گا۔
یہ درست ہے کہ بھارت کی فلم انڈسٹری بہت بڑی ہے تاہم پاکستان اور ترکی دو مسلمان ممالک ایسے ہیں جو فلم انڈسٹری میں اپنی پہچان اور ساکھ رکھتے ہیں،حال ہی میں ترکی کے قسط وار چلنے والے ڈراموں نے ہالی وڈ، بالی وڈ سمیت پوری دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا تھا کیونکہ ارطغرل غازی کو دیکھنے والوں کی تعداد نے گزشتہ تمام ریکارڈ توڑ دیئے تھے۔ ارطغرل غازی کو اس لئے بھی پسند کیا گیا کہ اس کی کہانی سچی جبکہ اس کے کردار حقیقت کے بہت قریب فلمائے گئے ہیں، جبکہ ہالی وڈ اور بالی وڈ میں مصنوعیت غالب دکھائی دیتی ہے، ایسے کردار پیش کئے جاتے ہیں جنہیں انسانی عقل تسلیم کرنے کیلئے آمادہ نہیں ہوتی۔
پاکستان کے ڈراموں کو پوری دنیا میں اپنی انفرادیت کی بدولت پذیرائی حاصل ہے، کیونکہ پاکستانی ڈراموں کی کہانی بہت سبق آموز، حقیقت کے قریب ار مختصر ہوتی ہے، جبکہ بھارتی ڈرامے طویل ہونے کی بنا پر سالہا سال چلتے ہیں جس کی کہانی کا کوئی سر پیر نہیں ہوتا ہے، بلکہ کہانی میں مذہبی رسومات کو زیادہ دکھایا جاتا ہے جسے مسلم سماج افورڈ نہیں کر سکتا۔ اگر پاکستان یا ترکی سے خدمات حاصل کر کے سعودی عرب اپنی فلم انڈسٹری کو پروموٹ کرنے کی کوشش کرتا تو اسے کئی فوائد حاصل ہو سکتے تھے۔
بھارتی فلم انڈسٹری سے خدمات حاصل کرنے کے بعد سعودی عرب کو سب سے بڑا دھچکا ہندو کلچر کے فروغ کی صورت لگے گا، سعودی عرب کے انٹرٹینمنٹ کے وزیر اور اتھارٹی اگرچہ یہ ظاہر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ بھارت کے مسلمان اداکاروں کی خدمات حاصل کر رہے ہیں، سلمان خان کا نام بھی اسی وجہ سے لیا جا رہا ہے، اس سلسلے کا آغاز شاہ رخ خان سے کیا گیا تھا، یہ محض ایک تاثر قائم کرنے کیلئے اپنے تئیں کوشش کی جا رہی ہے کہ مملکت میں مسلمان اداکاروں کو لایا جائے گا، تاہم حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے، سلمان خان جن سو افراد کے ساتھ سعودی عرب کے دورہ پر موجود ہیں ان میں سے اکثریت ہندوؤں کی ہے۔
جب سلمان خان کی فلموں کی شوٹنگ سعودی عرب میں ہونے لگے گی یا سعودی عرب اپنی فلمیں بھارتی اداکاروں اور فلم سازوں سے بنوائے گا تو بڑی تعداد میں ہندو سعودی عرب کا رخ کریں گے، یوں ہندو کلچر سعودی عرب میں فروغ پائے گا۔ جب ہندو زیادہ تعداد میں سعودی عرب میں جمع ہو جائیں گے تو عین ممکن ہے کہ دبئی کی طرح ارض مقدس میں بھی مندر کی تعمیر کا مطالبہ کر دیں اور ولی عہد محمد بن سلمان اس کی اجازت بھی دے دیں۔
سعودی عرب کے شہری اور حکام چونکہ پوری طرح سے ہندو کلچر کو نہیں جانتے ہیں، اس لئے وہ بھرپور انداز سے اسے ویلکم کر رہے ہیں، لیکن جب کچھ عرصہ گزرے گا اور ہندو کلچر جڑیں پھیلانا شروع کرے گا تو سعودی عرب کے مسلمان اسے کسی صورت قبول نہیں کریں گے۔ بھارتی فلم انڈسٹری کی خاصیت ہے کہ وہ جہاں جاتی ہے اپنی پہچان برقرار رکھتی ہے، دھیرے دھیرے بھارتی ڈرامے اور فلمیں سعودی عرب میں دکھائے جانے لگیں گی،جن میں بھارتی کلچر کو پھیلایا جائے گا۔
پاکستان اس سے قبل ہندو کلچر کا نقصان اٹھا چکا ہے، بھارتی ڈراموں نے جب پاکستان کے کلچر کو مسخ کرنا شروع کیا تو ارباب اختیار پاکستانی حکام نے بھارتی ڈراموں پر پابندی عائد کرنے میں عافیت سمجھی، لیکن درست بات یہ ہے کہ بھارت اپنے ڈراموں کے ذریعے اپنا کلچر پاکستان کی نئی نسل میں منتقل کرنے میں کامیاب ہو گیا، شاید اسی وجہ سے ایل کے ایڈوانی نے کہا تھا کہ پاکستان کو تباہ کرنے کیلئے ہماری فلم انڈسٹری ہی کافی ہے۔
پاکستان نے بھارتی کلچر کو روکنے کیلئے کافی حد تک قابو پا لیا ہے کیونکہ ہمارے پاس عوام کو دکھانے کیلئے بہترین ڈرامے موجود ہیں، اور فلم انڈسٹری بھی معیاری فلمیں بنانے کی صلاحیت ہے، لیکن سعودی عرب میں ہندوؤں کی موجودگی چند سال میں ہی سعودیوں کی سماجی حیثیت مسخ کر کے رکھ دے گی۔
اس تناظر میں دیکھا جائے تو تفریحی پروگرامات اور انٹرٹینمنٹ کو فروغ دینے کے نام پر سعودی عرب ایسی غلطی کرنے جا رہا ہے جس کا خمیازہ اس کی آنے والی کو نسلوں کو ہندو کلچر کے چیلنج کی صورت اٹھانا پڑے گا۔ اس کے برعکس اگر پاکستان اور ترکی کے فلم میکروں کی خدمات حاصل کی جائیں تو سعودی عوام کو معیاری مواد دیکھنے کے ساتھ ساتھ اپنے کلچر پر حملے کے خطرات کا سامنا نہیں کرنا پڑے ۔