کیا مسلم سماج اپنی شناخت کھو چکا؟
اسلام نے ایسے معاشرے کی تشکیل کا خاکہ پیش کیا ہے جس میں خیر اور بھلائی کے وسیع مواقع موجود ہیں، اور شر و برائی کو سر اٹھانے کا موقع نہیں ملتا، فرد کی زندگی کو اہمیت دی گئی ہے اسے آزادی، مساوات اور عدل سے نوازا گیا ہے، تاہم مجموعی سماج کے مفاد کو فرد واحد پر ترجیح دی گئی ہے۔ اسلام نے فرد کو ایسے کاموں کی اجازت نہیں دی جس سے معاشرے کے مجموعی اخلاقی و فکری ماحول میں کوئی منفی اثر پیدا ہوتا ہو۔ سورہ مائدہ میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ معاشرے میں بھلائی اور خدا ترسی کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کی جائے اور گناہ و ظلم کے کاموں میں کسی قسم کی کوئی مدد نہ کی جائے۔ سورہ توبہ میں مستقل طور پر ایک دوسرے کو نیکی کی تلقین کرتے رہنے اور برائیوں سے روکنے کی ہمت افزائی کی گئی ہے۔ اسلام نے اپنی مقدس تعلیمات کے ذریعے ان تمام راستوں کو بند کر دیا ہے جن سے صنفی برائیاں معاشرے میں پھیلتی ہیں۔
اسلام نے سماج میں مساوات اور انسانی حقوق میں سب کی شرکت کا انقلابی تصور پیش کیا، جس نے مثالی سماج کی بنیاد ڈالی، کیونکہ اسلام سے قبل تہذیبوں میں انسانی طبقات کے درمیان مساوات کا فقدان تھا۔یہود خود کو اللہ کی اولاد اور اشرف الناس سمجھتے تھے، جب کہ دوسروں کو پیدائشی ذلیل اور حقیر سمجھتے تھے۔ ان کی مذہبی کتاب ’’تلمود‘‘ کے مطابق یہودی روئے زمین کی سب سے بہتر مخلوق تھے اور دیگر انسانی طبقے خود یہودی نہیں ہوسکتے تھے اور کسی صورت میں ان کے برابر نہیں ہوسکتے تھے۔ اس وقت کی سپر پاور طاقت رومن امپائر نے سماج کو تین حصوں میں تقسیم کر رکھا تھا: (۱) امراء جنہیں بغاوت کے علاوہ کسی جرم میں سزائے موت نہیں دی جاسکتی تھی۔
(۲) متوسط طبقہ جسے غیر معمولی جرم میں سزائے موت دی جا سکتی ہے۔
(۳) نچلا طبقہ جس کے افراد کو معمولی جرائم میں قتل کردیا جاتا تھا، زندہ آگ میں جھونک دیا جاتا تھا۔
ایران والے اپنی قومیت کو عظمت و تقدیس کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ ان کا تصور تھا کہ دنیا کی ہر قوم اور ہر نسل پر انہیں برتری حاصل ہے۔ یہ اپنے گرد و پیش کی قوموں کو بڑی حقارت و ذلت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ ان کے لیے ایسے نام تجویز کر رکھے تھے، جس میں توہین و تمسخر کا پہلو پایا جاتا تھا۔
ہندی سماج نے باضابطہ ’’منوشاستر ‘‘ جیسا قانونچہ مرتب کر رکھا تھا، جس کو بہت جلد ملکی قانون اور مذہبی دستاویز کی حیثیت حاصل ہوگئی۔ منو شاستر کے مطابق برہمن ، برہما (خدا ) کے سر سے پیدا ہوے تھے، اس لیے مذہبی پیشوائی اور رہبری ان کا فرض منصبی تھا۔ پھر چھتریوں کا درجہ تھا جو برہما کے سینے سے پیدا ہوے اور ان کے ذمہ لڑائی اور دفاع کا کام سپرد ہوا۔ تیسرے نمبر پر ویش طبقہ تھا اس کا پیشہ زراعت و تجارت تھا اور یہ برہما کے کمر سے پیدا ہوے تھے۔ سب سے ذلیل شودر تھے جو برہما کے پاؤں سے پیدا ہوئے تھے اور جن کے ذمہ درج بالا تینوں قوموں کی خدمت کا کام سپرد ہو ا تھا۔
عرب میں قبائلی تعصب اور جتھہ بندی بڑی سخت تھی۔ اس عصبیت کی وجہ جاہلی مزاج تھا۔ بعض خاندان دوسرے خاندانوں کے ساتھ رسوم و عادات میں شرکت پسند نہیں کرتے تھے۔ مناسک حج میں قریش عام حجاج سے الگ تھلگ رہتے۔ ایک طبقہ پیدائشی آقاؤں کا تھا ، ایک طبقہ کم حیثیت لوگوں کا تھا جس سے بیگار لیا جاتا تھا۔اسلام نے تمام انسانوں کوخلقت کے اعتبار سے برابر قراردیا، اعلان ہوا کہ سارے انسان اللہ کی مخلوق ہیں، کوئی پیدائشی حقیر اور پیدائشی شریف نہیں۔ سارے انسان پیدائشی اعتبار سے برابر ہیں۔ ان میں کوئی اونچ نیچ نہیں۔ کوئی پاک یا ناپاک نہیں۔ کالے اور گورے، ایشیائی اور یورپی، مشرقی اور مغربی سب ایک درجہ کے اور ایک طرح کے حقوق رکھنے والے انسان ہیں۔ نسل و رنگ یا وطن و زبان کی بنا پر ان میں کوئی تفریق نہیں کی جا سکتی۔ ہاں اسلام نے یہ اعلان کیا کہ اگر بڑائی اور برتری کا کوئی معیار ہے تو وہ صرف تقویٰ اور پرہیز گاری ہے۔
ارشاد خداوندی ہے’’اے لوگو! حقیقت یہ ہے کہ ہم نے تم سب کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ہے اور تمہیں مختلف قوموں اور خاندانوں میں اس لیے تقسیم کیا ہے تاکہ تم ایک دوسرے کی پہچان کر سکو۔ درحقیقت ، اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں سے زیادہ متقی ہو۔ یقین رکھو اللہ سب کچھ جاننے والا اور ہر چیز سے باخبر ہے۔ ‘‘(حجرات)
اس آیت کریمہ نے مساوات کا یہ عظیم اصول بیان فرمایا ہے کہ کسی کی عزت و شرافت کا معیار اس کی قوم، اس کا قبیلہ یا وطن نہیں ہے بلکہ تقویٰ ہے۔ سب لوگ ایک مرد و عورت یعنی حضرت آدم و حوا (علیہما السلام) سے پیدا ہوئے ہیں۔ اللہ تعالی نے مختلف قبیلے خاندان یا قومیں اس لیے نہیں بنائیں کہ وہ ایک دوسرے پر اپنی بڑائی جتائیں بلکہ ان کا مقصد صرف یہ ہے کہ بے شمار انسانوں میں باہمی پہچان کے لیے کچھ تقسیم ہو جائے۔اسلام نے ساری انسانیت کی عزت افزائی کی اور بلا تفریق نسل و نسب انسان کو ’’تکریم‘‘کا تاج عطا کیا۔ ارشاد ہوا: ترجمہ: اور حقیقت یہ ہے کہ ہم نے آدم کی اولاد کو عزت بخشی ہے اور انہیں خشکی اور سمندر دونوں میں سواریاں مہیا کی ہیں اور ان کو اپنی بہت سی مخلوقات پر فضیلت عطا کی ہے۔ (سورۃ الاسراء)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سارے انسانوں کو اللہ تعالیٰ کا کنبہ قرار دیا، فرمایا ’’الخلق عیال اللہ‘‘ (بیہقی)
اسلامی معاشرے کی پہچان خیر خواہی اور ہمدردی ہے، مگر موجودہ حالات میں اسلامی تعلیمات سے دوری کے باعث مسلمان اپنی شناخت کھو چکے ہیں، سیالکوٹ میں پیش آنے والا سری لنکن شہری کی سفاکانہ موت کا واقعہ مسلم سماج کا آئینہ دار نہیں ہے، مسلمان تو مشکل میں لوگوں کی مدد کرتے ہیں، چند افراد کے انفرادی فعل کی وجہ سے اہل پاکستان کی شرمندگی ہوئی ہے، بلکہ پوری دنیا کے مسلمانوں کیلئے یہ واقعہ باعث شرم ہے۔ ہمیں سوچنا چاہئے کہ مسلم سماج کیوں اپنی شناخت کھو چکا ہے؟
جو افراد تشدد کو اسلام کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کر رہے ہیں دراصل وہ جہالت پر مبنی باتیں کر رہے ہیں، اسلام کی یہ تعلیمات ہرگز نہیں ہیں کہ کوئی شخص جرم کا ارتکاب کرتا ہے تو لوگوں کا ایک جتھہ اسے خود ہی سزا دینا شروع کر دے۔ ہاں البتہ ہندو سماج کا یہ خاصا رہا ہے کہ وہ جذبات کے ہاتھوں مغلوب ہوکر متشددانہ اقدامات اٹھا لیتے ہیں۔ جن افراد نے سیالکوٹ میں سری لنکن شہری کو بے دردی کے ساتھ قتل کیا ہے انہیں جلد سزائیں دینے کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے ایسا ہونا بھی چاہئے مگر کیا محض سزاؤں سے مثالی سماج تشکیل پا سکے گا؟ ہرگز نہیں، کیونکہ اگر صرف سزاؤں سے سدھار آنا یقینی ہوتا تو اللہ کے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم مثالی سماج کی تشکیل کیلئے محنت کرنے کی بجائے سزائیں دینے پر اکتفا کرتے، مگر یہ حقیقت ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ تشریف لے گئے تو سب سے پہلے مثالی سماج کی تشکیل کیلئے کوشش کی گئی، حتیٰ کہ ریاست کا قیام بھی بعد میں آیا، یعنی سب سے زیادہ محنت سماج کو تشکیل دینے میں کی گئی ،جب مثالی سماج تیار ہو گیا تو ریاست کا قیام عمل میں آیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کی مقدس تعلیمات اور اپنے کردار سے ایسا سماج تشکیل دیا جنہوں نے اپنے اعلیٰ اخلاق کی بنا پر پوری دنیا پر حکمرانی کی، جو صدیوں تک قائم رہی، انہی وجوہات کی بناپر سماجی ماہرین کہتے ہیں کہ معاشی ترقی کیلئے سماجی ترقی ضروری ہے۔