سیالکوٹ میں سری لنکن شہری کا اندوہناک قتل

ابتدائی رپورٹس کے مطابق مینیجر پریا نتھا کمارا اور سپروائزر جاوید کے مابین معمولی جھگڑے کے باعث واقعہ پیش آیا، جاوید نے جسے بعدازاں درود پاک کی گستاخی کا رنگ دینے کی کوشش کی

سیالکوٹ میں ہجوم کے ہاتھوں فیکٹری مینیجر سری لنکن شہری پر تشدد اور بعدازاں جلا کر خاکستر کرنے کی اطلاعات ہیں، واقعے کی پوری تفصیلات سامنے نہیں آ سکی ہیں، کہا جا رہا ہے کہ فیکٹری ملازمین میں سے کسی نے کہا کہ مینیجر نے درود پاک کی گستاخی کی ہے اب یہ گستاخی کیسے تھی اس بارے کچھ سامنے نہیں آ سکا ہے، یہ کہنا تھا کہ فیکٹری کے ملازمین اپنے غیر ملکی مینیجر پر پل پڑے، اس پر تشدد کیا گیا اور سڑک پر لا کر اسے آگ لگا دی گئی۔

بتایا جا رہا ہے کہ فیکٹری کے اندر بھی لوگوں کو اصل معاملے بارے علم نہیں تھا بس یہ خبر پھیلا دی گئی کہ مذکورہ شخص نے مذہب کی توہین کی ہے۔ بعض ویڈیوز میں تحریک لیبک والوں کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے کہ تحریک لبیک کے پوسٹر جس پر کچھ لوگوں کے نام درج تھے وہ نزاع کی وجہ بنا ہے۔ تحریک لبیک کی طرف سے کوئی مؤقف سامنے نہیں آ سکا ہے، تحریک لبیک کو اس سلسلے میں جلد وضاحت دینی ہو گی، جب تک وضاحت نہیں آ جاتی حتمی طور پر کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا،اگر واقعی تحریک لبیک کا نام استعمال ہوا ہے تو تحریک کو وقوعہ میں ملوث افراد سے لاتعلقی کا اعلان کرنا ہو گا۔
پاکستان کی سرزمین پر اس واقعے کا رونما ہونا شرمناک ہے، اس کی جس قدر مذمت کی جائے کم ہے، کیونکہ کسی کو بھی یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ قانون کو ہاتھ میں لے کر خود فیصلہ کرنا شروع کر دے، غیر ملکی مینیجر کی طرف سے اگر واقعی کوئی گستاخی کی گئی تھی تو پھر بھی پولیس کو اطلاع دنیا ضروری تھا۔

مقتول سری لنکن شہری پریا نتھا کمارا کی فائل فوٹو


پنجاب حکومت نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے پچاس افراد کو گرفتار کر لیا ہے، جبکہ باقیوں کی شناخت کی جا رہی ہے، ترجمان پنجاب حکومت نے کہا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان اور وزیر اعلیٰ عثمان بزدار نے واقعے کی تحقیقات کا حکم دیا ہے اور تحقیقات مکمل ہونے کے انصاف کیا جائے گا۔ حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ واقعے میں ملوث افراد کو قانونی تقاضے پورے کرنے کر کے جلد سزا دے تاکہ آئندہ کسی کو مذہب کی آڑ میں دنگا فساد اور قتل کی جرات نہ ہو۔
ابتدائی اطلاعات میں غیر ملکی مینیجر کو قتل کرنے والے فیکٹری کے ملازمین ملوث بتائے جا رہے ہیں، اگر یہی سچ ہے تو یہ بہت خطرے کی بات ہے کیونکہ فیکٹری ملازمین عام طور پر کم پڑھا لکھا طبقہ تصور کیا جاتا ہے،اگر کم پڑھا لکھا طبقہ مذہب کے معاملات میں حساس ہے اور اسے جواز بنا کر کسی کی جان لینے سے بھی گریز نہیں کرتا ہے تو مذہبی طبقہ جو مذہب کی تعلیمات سے مکمل طور پر آراستہ ہے وہ مذہب کی آڑ میں کیا کر سکتا ہے۔
مذہبی طبقے کو کھل کر اس واقعے کی مذمت کرنی چاہئے تاکہ مذہب کی آڑ میں کوئی بھی شخص قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش نہ کرے۔وزیراعظم کے نمائندہ خصوصی برائے بین المذاہب ہم آہنگی علامہ طاہر اشرفی نے کہا ہے کہ وہ افسوسناک واقعے کی مذمت کرتے ہیں،اسلام امن اور سلامتی کا دین ہے،ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔
طاہر اشرفی نے کہا کہ جن عناصر نے یہ کام کیا ہے، انہوں نے توہین مذہب کے حوالے سے قوانین کو نقصان پہنچایا ہے، ہم نے بہت مشکل سے پاکستان میں امن کی فضا کو قائم کی ہے۔

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button