والدین پسند کی شادی کو انا کا مسئلہ نہ بنائیں

پاکستان جیسے معاشروں میں پسند کی شادی کو والدین کی طرف سے انا کا مسئلہ بنا لیا جاتا ہے، خاندان اور سماج والے جلتی پر تیل ڈالنے کا کام کرتے ہیں، پسماندہ علاقوں میں تو پسند کی شادی کا سرے سے تصور ہی نہیں ہے اگر کسی لڑکے اور لڑکی نے جرأت کر کے اپنی مرضی سے شادی کر لی تو خاندان والے اسے تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں ہوتے ہیں، کئی جوڑوں کو محض پسند کی شادی کی وجہ سے غیرت کے نام پر قتل کیا جا چکا ہے، حالانکہ آئین اور شریعت عاقل و بالغ افراد کو اپنی مرضی سے شادی کا حق دیتے ہیں لیکن ہمارا سماج اس کے آڑے آ جاتا ہے اور ایسی پابندیاں سننے کو ملتی ہیں جسے انسانی آزادی سلب کرنے کے مترادف سمجھا جا سکتا ہے۔
والدین کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ جب بچے بالغ ہونے کے قریب ہوں تو شادی کے حوالے سے ان کی رائے معلوم کریں، مائیں لڑکیوں کی رائے لیتے ہوئے یہ جاننے کی کوشش کریں کہ اگر ان کے ذہن میں کوئی لڑکا ہے تو وہ ماں کے سامنے اس کا اظہار کر دے، سیانے کہتے ہیں کہ لڑکیاں بالغ ہوتے ہی اپنے جیون ساتھی کے خوابوں میں گم رہنے لگتی ہیں، لڑکے کی نسبت لڑکی کا دھیان شادی کی طرف زیادہ جاتا ہے جبکہ لڑکے بالعموم فکر معاش اور ملازمت کی تلاش میں رہتے ہیں یا لڑکوں کے پاس دوستوں کے ساتھ آوارہ گردی کے مواقع زیادہ ہوتے ہیں، اسی طرح یہ بھی ہمارے سماج کی تلخ حقیقت ہے کہ لڑکوں کو رشتہ آسانی سے مل جاتا ہے، سو لڑکے اپنے کیریئر بنانے میں لگے رہتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ہر لڑکی کے خیالوں میں کوئی نہ کوئی دلہا ہوتا ہے، ماں کو چاہئے کہ اپنی بچی کی پسند کو معلوم کرے اور ممکن ہو تو اسی جگہ شادی کر دی جائے جہاں پر لڑکی چاہتی ہے۔
ہمارے ہاں اکثر والدین ایک غلطی کرتے ہیں کہ لڑکی کے رشتے کو اپنے ذہن میں رکھتے ہیں اس کا اظہار کسی کے سامنے نہیں کیا جاتا ہے جبکہ لڑکی اپنے طور پر کسی دوسرے لڑکے کو پسند کرنے لگتی ہے جب گھر والوں کو معلوم ہوتا ہے تو اس پر ناراضی کا اظہار کرتے ہیں حالانکہ اگر والد یا والدہ شروع ہی سے اپنی بچی کے ذہن میں یہ بات ڈال دیتے کہ فلاں جگہ پر تمارے رشتہ کی بات چل رہی ہے تو لڑکی اسی جگہ ہی ذہن بنا لے گی۔
اگر لڑکی والدین کی مرضی کے خلاف شادی کرنا چاہتی ہے تو والدین کو چاہئے کہ اس بات کا گہرائی میں جا کر جائزہ لیں، اگر معلوم ہو جائے کہ لڑکی جذبات میں آ کر غلط فیصلہ کرنے جا رہی ہے تو اسے پیار سے سمجھائیں اور کوشش کریں کہ اس کی زندگی تباہ ہونے سے بچ جائے لیکن جب والدین کو معلوم ہو جائے کہ لڑکی جس لڑکے سے شادی کرنا چاہتی ہے وہ تعلیم یافتہ اور نیک سیرت ہے تو والدین خواہ مخواہ راستے میں رکاوٹ نہ ڈالیں اور لڑکی کو مجبور نہ کریں کہ وہ والدین کی مرضی کے مطابق ہی شادی کرے۔
والدین کی طرف سے مسلط کئے جانے والے فیصلے پر اولاد میں بغاوت آتی ہے، آج کے بچے چونکہ کافی آزاد خیال ہیں تو موجودہ دور میں والدین کو بچوں کی خوشی اور ان کی مرضی کا زیادہ خیال رکھنا چاہئے۔ والدین یہ بات ذہن میں رکھیں کہ اگر وہ بچوں پر جبری فیصلہ مسلط کرنے کی کوشش کریں گے تو اس سے وہ خود بھی پریشانی کا شکار ہوں گے تو کیوں نہ بچوں کی خوشی میں شامل ہو کر انہیں احساس دلایا جائے کہ انہیں اپنے بچوں کی خوشی عزیز ہے جب والدین بچوں کو اعتماد دلائیں گے تو یقین جانیں بچے بھی ایسا کوئی فیصلہ نہیں کریں گے جس سے والدین کو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے۔

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button