اوربوعلی سینا کے دل کی کایا پلٹ گئی
شیخ بوعلی سینا کی علمی و سائنسی تحقیقات کو آج کی جدید دنیا تسلیم کرتی ہے، اہل مغرب ان کی کتابوں کا ترجمہ کر کے ان سے استفادہ کر رہے ہیں، ان کا علمی مقام مسلمانوں اور غیرمسلمون میں یکساں طور پر تسلیم کیا جاتا ہے ، تاہم ان کی زندگی کے کچھ گوشے ایسے بھی جن سے بہت کم لوگ واقفیت رکھتے ہیں ، ان کی زندگی کی کایا ایک واقعہ سے پلٹ گئی ۔
ایک بزرگ ولی اللہ نے شیخ بو علی سینا سے فرمایا کہ تو نے علوم عقلیہ اور فلسفہ میں اپنی ساری عمر برباد کی… آخر کس مرتبہ تک تو پہنچا؟
شیخ بو علی سینا نے فرمایا کہ دن میں مجھے ایک ایسی گھڑی اور ساعت کا علم ہے کہ اس گھڑی میں لوہا آٹے کی طرح نرم ہو جاتا ہے…
بزرگ نے فرمایا جب وہ ٹائم اور گھڑی آئے تو مجھے بتانا… چنانچہ شیخ بو علی سینا ؒ نے وہ گھڑی بتا دی اور ہاتھ میں لوہا لے کر اس میں انگلی داخل کر دی… تو انگلی اس کے اندر دھنس گئی…
وہ ٹائم اور گھڑی گزر جانے پر اس بزرگ نے شیخ بو علی سینا سے فرمایا کہ اب پھر اسی طرح لوہے کے اندر انگلی داخل کرو…
شیخ بو علی سینا نے کہا وہ گھڑی گزر چکی ہے‘ اب ممکن نہیں تو اس بزرگ نے لوہا ہاتھ میں لے کر کرامت سے اپنی انگلی اس میں داخل کر دی اور فرمایا کہ عقل مند کے لیے یہ مناسب نہیں کہ ہے…
کہ وہ اپنی عمر عزیز ایسی بے کار چیزوں میں تباہ کر دے ، یہ کوئی کمال نہیں…
کمال یہ ہے کہ آخرت کے لیے بندہ محنت کرے اور اپنے اللہ کو راضی کر لے…
شیخ بو علی سینا اس سے بہت متاثر ہوا… اور اس کی زندگی میں تبدیلی آ گئی…
مرض الموت میں دل سے توبہ کی ، اپنا مال فقراء پر صدقہ کیا اور اپنے تمام حقوق ادا کر دیے… اور کثرت کے ساتھ تلاوت کرنے لگے…
چنانچہ ہر تیسرے دن ایک قرآن کریم ختم کرتے تھے اور جب ان کا انتقال ہو ا تو صحیح بخاری شریف ان کے سینے پر پڑی تھی۔