بزرگ کا خدا سے انوکھا عہد
ایک بزرگ آدمی پہاڑ کی گھاٹی میں گیا اور اللہ تعالیٰ سے عہد کیا کہ میں تمام دینوی تعلقات سے رخ پھیر کر اب آپ کی عبادت میں یہاں مقیم رہوں گا اور بھوک سے جب تنگ حال ہوں گا تو آپ کی طرف سے عطا کا منتظر رہوں گا‘ خود نہ کسی مخلوق سے سوال کروں گا‘ نہ اس جنگل کے درختوں سے کوئی پھل یا پتہ توڑ کر کھاؤں گا۔ البتہ جو پھل خودبخود ہوا سے زمین پر گریں گے صرف ان کو کھا کر زندگی بسر کروں گا۔
ایک مدت تک یہ بزرگ اپنے عہد پر قائم رہا ‘ یہاں تک کہ حق تعالیٰ کی طرف سے امتحانات شروع ہو گئے اور اس امتحان کی وجہ یہ تھی کہ اس بزرگ نے کچھ یوں نہ کہا تھا کہ ان شاء اللہ میں اس عہد پر قائم رہوں گا۔ اس ان شاء اللہ نہ کہنے سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس بزرگ کی نظر اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ہٹ کر اپنی ہمت اور طاقت پر چلی گئی ہے اور اپنی عاجزی و انکساری کے ظاہر کرنے کے بجائے ایک طرح کا تکبر معلوم ہوتا ہے۔ اس لیے اپنے عمل کی شامت نے اسے سخت امتحان میں گھیر لیااور اس کے دل سے وہ نور جاتا رہا جس کی وجہ سے اس کے قلب میں بھوک کی تکلیف برداشت کرنے کی قوت و ہمت اچانک بالکل ختم ہو گئی۔ ادھر اللہ تعالیٰ نے ہوا کو حکم فرما دیا کہ اس پہاڑ کی وادی کی طرف ہو کر نہ گزرے‘ چنانچہ پانچ روز تک ہوا بالکل بند ہو جانے سے درخت سے کوئی پھل زمین پر نہ گرا۔ پس بھوک کی شدت سے وہ بزرگ بے چین ہو گیا‘ صبر کا دامن ہاتھ سے چھوٹ گیا اور کمزوری نے اس کو خود اپنے وعدے کو توڑنے پر مجبور کر دیا۔ وہ بزرگ جو ایک طرف ہمت و استقامت کا پہاڑ اب گمراہی کی وادی میں بھٹکنے لگا۔ چنانچہ جب اپنا عہد و نذر فسخ کرکے وہ درختوں سے پھل توڑ کے کھانے لگا تو اللہ تعالیٰ کی غیرت کو جوش آ گیا اور اس فقیر کو سزا دی گئی کیوں کہ حکم الٰہی ’’اُوفُوا بِالعُھُوُدِ‘‘ کے خلاف کیا ہے۔
چنانچہ اس بزرگ کی سزا کا واقعہ اس طرح ہوا کہ چوروں کا ایک گروہ رات کو اس پہاڑ کے دامن میں ٹھہر گیا ۔ ایک مخبر نے شہر کے پولیس افسر کو اطلاع دے دی کہ آج چوروں کا گروہ فلاں پہاڑ کے دامن میں ٹھہرا ہوا ہے۔ اس سے پہلے کہ پولیس افسر ان چوروں کو گرفتار کرتا‘ اس نے پہاڑ کے دامن میں اس درویش کو دیکھا اور سمجھا کہ یہ کوئی چور ہے‘ فوراً گرفتار کر لیا۔ فقیر نے بہت شور مچایا کہ میں چور نہیں ہوں‘ لیکن تھانے دار اور سپاہیوں نے ایک نہ سنی اور اس کا داہنا ہاتھ اور بایاں پیر کاٹ ڈالا۔ اسی اثناء میں ایک سوار اُدھر سے گزرا ۔ اس نے جب یہ قصہ دیکھا تو تھانے دار اور اس کے ساتھیوں کو بہت ڈانٹا کہ اے کمبخت! تو نے ایسے نیک فقیر کے ساتھ یہ کیا سلوک کیا؟ یہ تو فلاح شیخ کامل اور ابدال وقت ہے جس نے دنیا سے کنارہ کش ہو کر اس جگہ خلوت اور تنہائی اختیار کی تھی۔
یہ سنتے ہی افسر پر لرزہ طاری ہو گیااور خوف و ندامت سے ننگے پیر ‘ سر اس بزرگ کی طرف دوڑا اور اپنی غلطی پر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگااور قسم کھا کر عرض کیا کہ میں نہیں جانتا تھا کہ آپ ایک بزرگ شخص ہیں‘ میں نے غلط فہمی سے آپ کو چوروں کے گروہ کا ایک آدمی سمجھ کر یہ معاملہ کیا۔ خدا کے لیے آپ مجھے معاف کر دیں‘ ورنہ میں ابھی عذابِ الٰہی میں مبتلا ہو کر مر جاؤں گا۔
درویش نے کہا بھائی تیرا کوئی قصور نہیں ‘ میں خود قصوروار ہوں‘ میں نے اپنے مالک سے بدعہدی کی تھی جس کی مجھے سزا ملی ہے۔
اس واقعہ سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ہمیں اللہ تعالیٰ کے حضور عاجزی اور انکساری کا اظہار کرنا چاہیے۔ اور ہمیں ہر وقت اللہ تعالیٰ کی نعمت اور اس کی عطا کا محتاج سمجھنا چاہیے۔ اور ہر حال میں اللہ تعالیٰ سے عافیت کا سوال کرنا چاہیے۔ اپنی ہمت اور اپنے تقویٰ پر ناز کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے ایسا عہد نہ کرنا چاہیے کہ اس میں اپنی کمزوری اور بندگی سے نظر اٹھ جائے۔ اس لیے کوئی بندہ بھی اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے امتحان کے قابل نہ سمجھے۔ بلکہ ہمیشہ اس کے فضل اور اس کی ہر چھوٹی بڑی نعمت کا سوال کرے۔