دیہی خواتین کیلئے امید کی کرن
فضہ فرحان کا توانائی کے حصول میں آسانی پیدا کرنے کا منصوبہ پاکستان کے علاوہ دنیا کے دیگر ممالک میں بھی آزمایا جا رہا ہے
فضہ فرحان پاکستان کے کارپوریٹ سیکٹر میں لیڈر شپ کی سطح پر جگہ بنانے والی خاتون ہیں جن کا توانائی کے حصول میں آسانی پیدا کرنے کا منصوبہ پاکستان کے علاوہ دنیا کے دیگر ممالک میں بھی آزمایا جا رہا ہے۔لاہور سے تعلق رکھنے والی فضہ کاروباری شخصیت اور ترقیاتی ماہر ہونے کے سا تھ سماجی کارکن بھی ہیں۔ اُن کی آواز عالمی پلیٹ فارم پر سنی جاتی ہے اور اثر بھی رکھتی ہے۔ 2016ء میں وہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی مشیر اور خواتین کی معاشی خود مختاری کے اعلیٰ سطح کے پینل کی رکن منتخب ہوئیں۔ فضہ فرحان نے اپنی پیشہ وارانہ زندگی کا آغاز بخش فائونڈیشن اور بخش انرجی کمپنی میں چیف آپریٹنگ آفیسر کے عہدے سے کیا تھا جو پاکستان میں بجلی بحران کا حل شمسی توانائی کے ذریعے لانے والی کمپنیوں میں سے ایک تھی۔ فضہ کی قیادت میں دیہی علاقوں کی خواتین کو شمسی توانائی گھر گھر پہنچانے کا کام سکھانے کا منصوبہ ’’روشنا بی بی‘‘ کامیاب ہوا جس کی بدولت وہ 2015ء میں فوربز میگزین کی 30 انڈر30 فہرست میں شامل ہوئیں۔ وہ اب ’’روشنا بی بی‘‘ کی طرز پر’’امپاور‘‘ کے نام سے ایک منصوبہ اقوام متحدہ کی مدد سے ایشیاء پیسفک کے خطے میں پھیلا رہی ہیں۔ فضہ کہتی ہیں کہ کسی بھی منصوبے کے لئے پہلے ایک لائحہ عمل بنانا ہوتا ہے تاکہ اس پر کسی بھی ادارے کی طرف سے گائوں کی سطح پر جا کر عملدرآمد کیا جا سکے۔اگر پاکستان میں ’’روشنا بی بی‘‘ منصوبہ شروع کیا گیا تو بھارت میں ’’جَوتی بی بی‘‘ کے نام سے منصوبے پر کام ہوا اور اسی طرح ہر ملک میں وہاں کی پسندیدہ خاتون کے نام پر اس منصوبے کو وسعت ملتی گئی۔فضہ کو فخر ہے کہ وہ پاکستان میں نجی شعبے کی اُن ایک فیصد خواتین میں شامل ہیں جو سی ای او کے اعلیٰ عہدے تک پہنچتی ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ چونکہ ہمارے ہاں اکثر خاندانی اور معاشرتی دبائو کا سامنا ہوتا ہے جو زیادہ تر خواتین برداشت نہیں کر پاتیں یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی پیشہ وارانہ زندگی کے وسط میں چھوڑ جاتی ہیں۔ فضہ کی قائم کردہ کمپنی’’ ڈویلپمنٹ ایڈوائس ریفارمز‘‘ ترقیاتی کاموں کے بنیادی طریقوں کو بدلنے پر آج کئی بین الاقوامی کمپنیوں کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہے۔وہ کہتی ہیں کہ اگر نجی شعبے میں خواتین کے لئے پالیسیوں میں نرمی لائی جائے تو اس کا یقیناً اداروں کو فائدہ ہوگا کیونکہ ہنرمند خواتین کی صلاحیتوں اور نقطہ نظر کا کوئی نعم البدل نہیں ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ اگر خواتین کاروبارکی طرف آئیں تو زیادہ بہتر طور پر کام کر سکتی ہیں۔