پیاری روایات

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہر چیز میں تبدیلی آ تی جاری رہی ہے۔ سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی نے روز مرہ زندگی میں بہت آسانیاں پیدا کر دی ہیں۔ مہینوں اور ہفتوں میں طے ہونے والے فاصلے گھنٹوں اور منٹوں تک سمٹ گئے ہیں۔ کئی افراد جس کام کو سارا دن لگا کر مکمل کرتے تھے، وہ جدید مشینری کے استعمال سے کچھ ہی دیر میں مکمل کر لیتا ہے۔ جہاں پیغام رسانی میں کئی کئی ماہ لگتے تھے، اب چند سیکنڈز میں دنیا کے کسی بھی کونے میں پیغام پہنچ جاتا ہے۔ سائنس و ٹیکنالوجی کے فروغ اور جدید آلات نے جہاں ہمارے لیے بہت آسائشیں پیدا کی ہیں، وہیں اس سے ہماری روایات جس میں باہمی محبت ، عزت اور رشتوں کے تقدس کا خیال رکھا جاتا تھا، وہ بھی معدوم ہو گئیں ۔
زیادہ دور نہیں بلکہ صرف ڈیڑھ دو دہائی قبل تک فصل کی کاشت کیلئے زمینوں میں ٹریکٹر کی جگہ بیلوں سے ہل چلایا جاتا تھا۔ کسان جب کھیت میں ہل چلارہا ہوتا یا دیگر کام انجام دے رہا ہوتا تواس دوران اُس کی بیوی اپنے خاوند کے لیے دوپہر کا کھانا لے کر جاتی۔ اُس وقت خواتین کو یہ بھی گوارہ نہیں ہوتا تھا کہ شوہر کے لیے کوئی اورکھانا بھی لے کر جائے۔ کسمپرسی اور غربت کے اس دور میں کھانا سادہ مگر محبتوں کی چاشنی سے بھرپور ہوتا تھا۔ اکثر خشک سالن روٹیوں کے اوپر ہی رکھ کر اُنہیں تہہ کر کے روٹیاں رکھنے والے کپڑے کے اندر لپیٹ کر لے جایا جاتا۔ گھر سے کھیت تک لے جاتے ہوئے روٹیاں اور سالن ٹھنڈے بھی ہو جاتے تھے۔ کھیت میں موجود کسان بیوی کی آمد کے بعد کام روک کر ہاتھ اور منہ وغیرہ دھوتا اور دونوں میاں بیوی کھیت میں کسی درخت کے سائے میں بیٹھنے کے لیے بنائی گئی جگہ اکٹھے ہو جاتے۔ عموماً خواتین گھر سے کھانا کھا کر نہیں آتی تھیں اور اپنے حصے کا کھانا بھی ساتھ لے کر آ جاتی تھیں۔ کھانا کھلتا، دونوں میاں بیوی ساتھ ساتھ کھانا کھاتے جاتے اور ساتھ ساتھ گفتگو کا دور بھی چلتا۔ بیوی خاوند کی محنت و مشقت سے اُسے ہونے والی تھکاوٹ پر اُس سے ہمدردی کا اظہار کرتی اور موسم کی مطابقت سے اُس سے دن کو گرمی یا سردی محسوس ہونے بارے دریافت کرتی۔ خاوند بھی اُس سے دن کے احوال اور گھریلو معاملات بارے دریافت کرتا۔وہ بھی بیوی سے گھریلو کاموں میں اُسے ہونے والی تھکاوٹ پر اُس سے ہمدردی کا اظہار کرتا اور اُس کے ساتھ کھانا کھانے کیلئے انتظار میں بھوک برداشت کرنے پر اُنس و قربت کا اظہار کرتا۔ کھانے کے اس دور میں دونوں میاں بیوی کی باہمی گفتگو ، ایک دوسرے سے ہمدردی کے اس اظہار سے دونوں کی آدھی تھکاوٹ دور ہو جاتی اور وہ ذہنی طور پر دوبارہ سخت اور محنت طلب کام کے لیے تیار ہو جاتے۔ گو کہ اُس وقت چھوٹے سے کام میں زیادہ وقت صرف ہوتا تھا اور بہت زیادہ محنت سے کم پیداوار حاصل ہوتی تھی، لیکن یہ سارے امور ایک خوشگوار احساس کا نام تھے۔ مگر اب یہ سب چیزیں قصہ پارینہ بن چکی ہیں۔ روایات بھی یکسر بدل چکی ہیں، وہ محبتیں اور اُنث نہیں رہے۔ رشتوں کا تقدس باقی نہیں رہا۔ رشتے بھی محض ضرورت کی طرح نبھائے جاتے ہیں۔ اب روٹیوں کو گرم رکھنے کیلئے رومال کے بجائے ہاٹ پاٹ اور سالن وغیرہ کے لیے ٹفن آ گئے ہیں۔ ان سے کھانے پینے کی چیزیں کئی گھنٹوں تک گرم رکھی جا سکتی ہیں۔ لیکن اب کھانوں میں وہ لذت نہیں رہی ۔ معدو م ہوتی ان روایات نے ہر چیز میں مصنوعی اور بناوٹی پن پیدا کر دیا ہے۔ آسائشوں اور نعمتوں کی کثرت کے باوجود اطمینان اور لذت حاصل نہیں ہوتی۔

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button