ایک قیمتی نصیحت
ہم سے یہ عہد لیا گیا کہ ہر نعمت اور مصیبت کے دونوں رخ دیکھا کریں۔ کسی نعمت یا مصیبت کی محض ظاہری صورت کو نہ دیکھیں کیونکہ بعض دفعہ مصیبتوں کی شکل میں نعمتیں آتی ہیں اور کبھی نعمتوں کی صورت میں بلائیں آتی ہیں۔
اگرہم نعمتوں کے باطنی رخ کو دیکھیں گے تو ان کو طرح طرح کی آزمائشوں میں گھرا ہوا پائیں گے کم از کم ایک بلا تو یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نعمت والے سے یہ مطالبہ فرماتے ہیں کہ اس نعمت کو کسی وقت بھی کسی مخلوق کی طرف سے منسوب نہ کرے کہ فلاں کی وجہ سے مجھ کو یہ نعمت ملی، بلکہ صرف اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرے اور اللہ تعالیٰ اس سے یہ بھی مطالبہ فرماتے ہیں کہ نعمت کو ان ہی مواقع میں صرف کرے جہاں اللہ تعالیٰ اس کے صرف کرنے کو پسند کرتے ہیں اور یہ مطالبہ بھی ہوتا ہے کہ نعمت کا شکر بجالائے محض زبان سے ہی نہیں بلکہ عمل سے بھی۔ اب جو شخص نعمت میں ان بلائوں کا مشاہدہ کرتا ہو وہ ان سے لذت حاصل کرنے کی فرصت کب پائے گا۔
اسی طرح اگر ہم تکلیفوں اور مصیبتوں کے باطن پر نظر کریں تو ان کا اپنے حق میں بہت بڑی نعمت ہونا معلو م ہوگا کیونکہ ان سے ذلت و عا جزی پیدا ہوتی ہے اور ہمارا بازو جھک جاتا ہے ۔
مصیبت سے انسان کی آزمائش اس وقت کی جاتی ہے جب اللہ تعالیٰ کی نعمتیں دربار خداوندی کی طرف اس کو متوجہ نہ کرتی ہوں جب نعمتیں اس کو اللہ کی طرف متوجہ نہیں کرتیں تو اب اللہ تعالیٰ اس کو مصائب میں مبتلا کر دیتے ہیں چنانچہ اللہ تعالیٰ خود فرماتے ہیں ۔ ’’اور ہم نے ان کو راحتوں اور مصیبتوں میں مبتلا کیا شاید اللہ کی طرف رجوع کریں۔‘‘ یعنی اول تو ان کو راحتوں اور نعمتوں میں رکھا جب ان سے رجوع نہ ہوئے تو مصائب و تکالیف میں مبتلا کر دیا۔
اور تاج الدین بن عطاء اللہ نے اس سے بھی زیادہ عجیب بات بیان کی ہے وہ فرماتے ہیں کہ ’’جو گناہ ذلت و انکساری پیدا کردے وہ اس اطاعت سے بہتر ہے جو غرور و تکبر پیدا کردے۔‘‘