تکریم قرآن، ہندو کی لاش جلنے سے محفوظ رہی

ایک نیک دل ہندو جو شہر لکھنؤ میں رہتا تھا اس ہندو کا بہتر بڑا پریس تھا… جس میں وہ کتابیں چھاپتا تھا۔
اور مزے کی بات یہ ہے کہ وہ زیادہ کتابیں ایسی چھاپتا تھا جن کا تعلق مسلمانوں اور دین اسلام سے تھا۔
جب یہ کتابیں چھاپی جاتی تھیں تو وہ ان لوگوں کے لباس اور جسم کو پاک رکھنے کا خاص انتظام کرتا تھا جو اس کے پریس میں کام کرتے تھے۔
چھپائی وغیرہ کا کام مسلمان کرتے تھے اور ان کے لیے ضروری تھا کہ کام سے پہلے باقاعدہ وضو کریں۔
اس زمانے میں پریس کی مشینیں بالکل سادہ تھیں اور کتابت کا طریقہ بھی بالکل سادہ ہی تھا۔
پیلے رنگ کے خاص کاغذ پر خاص قسم کی روشنائی سے کتابت کی جاتی تھی اور پھر ان کاغذوں کو پتھر کی سلوں پر جما کر ان کا عکس لیا جاتا تھا۔
جب کوئی چیز چھپ جاتی تو پتھر کی سلوں کو دھو کر لفظ مٹا دیے جاتے اور ان سلوں پر نئے کاغذ جما کر نئی چیزیں چھاپی جاتی تھیں۔
اس سلسلے میں اس نیک دل ہندو نے یہ انتظام کیا تھا کہ پتھر کی جن سلوں پر قرآن مجید اور دوسری دینی کتابیں چھاپی جاتی تھیں ‘ جب وہ دھوئی جاتیں تو اس کا پانی زمین پر نہ گرایا جاتا تھا بلکہ مٹکوں میں بھر لیا جاتا تھا اور پھر اسے دریا میں بہا دیا جاتا تھا…یہ کام قرآن پاک کے ادب کی وجہ سے کیا جاتا تھا۔
ان باتوں کے علاوہ اس نے قرآن مجید اور دوسری دینی کتابوں کی چھپائی کی نگرانی کے لیے اونچے درجے کے مسلمان عالم مقرر کیے تھے ۔ کسی بڑے عالم کی تصدیق کے بغیر کوئی دینی کتاب نہ چھاپی جاتی تھی۔
اس ہندو تاجر کے نواسے نے ایک ملاقات میں بتایا کہ جب اس کے ہندو نانا کا انتقال ہوا تو اس کے مذہب کے مطابق اس کی چتا تیار ہو گئی… اور لاش اس پر رکھ دی گئی۔ لیکن جب اس کے بڑے بیٹے نے اس ہندو کی چتا کو آگ لگائی تو کئی بار کی کوشش کے باوجود لکڑیوں نے آگ نہ پکڑی…لاش جلنے سے بالکل محفوظ رہی۔
یہ ایک نرالا واقعہ تھا جو سب نے دیکھا…لوگ حیران تھے کہ لکڑیاں جلتی کیوں نہیں۔
جب سب اپنی سی کوشش کر کے تھک گئے تو پنڈتوں نے فیصلہ کیا کہ لاش کو دریائے گومتی میں بہا دیا جائے۔ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا اور اس نیک دل ہندو کی لاش آگ کے عذاب سے بچ گئی۔
اس وقت جو لوگ وہاں موجود تھے…انہوں نے تو معلوم نہیں کیا سمجھا ہوگا۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس ہندو کو یہ برکت قرآن پاک اور دین اسلام کی کتابوں کا ادب کرنے کی وجہ سے ملی تھی۔ اس ہندو کا نام منشی نول کشور (ن و ل ک ش ور۔یعنی خوبصورت لڑکا) تھا۔

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button