بڑے بول سے اللہ بچائے
پاکستان آسٹریلیا سے سیمی فائنل کا اہم ترین کرکٹ میچ ہار چکا ہے، یوں فائنل کھیلنے اور ٹی ٹوئنٹی کا ورلڈ کپ پاکستان آنے کی آخری امیدیں دم توڑ گئی ہیں، قوم اس پر رنجیدہ ہے، شائقین کرکٹ اس حقیقت کو تسلیم کرنے کیلئے دلی طور پر تیار نہیں ہیں کہ ہم سیمی فائنل کا میچ ہار چکے ہیں، لیکن کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ پاکستانیوں کے بڑے بول ہی اس کی شکست کا سبب بنے ہیں ، پاکستانیوں کے طرز عمل کسی بھی اعتبار سے درست قرار نہیں دیا جاسکتا، ایسے بول بولے جا رہے تھے جو خدا کو قطعی پسند نہیں ہیں، ایسی بات کہی جا رہی تھی جیسے پاکستانی ٹیم ہار ہی نہیں سکتی ہے، حالانکہ وہ بھی انسان ہیں، ہار اور جیت کھیل کا حصہ ہے، ایک کھلاڑی جس نے پہلے کارکردگی دکھائی، وہ دوسرے میچ میں ناکام ہو سکتا ہے۔ پاکستانیوں نے مگر قبل از وقت کہنا شروع کر دیا کہ فائنل میں نیوزی لینڈ کو ہرائیں گے، بندہ پوچھے کہ کیا آپ نے سیمی فائنل جیت لیا ہے جو فائنل کی بات کر رہے ہیں اس طرح کے دیگر عوامل تھے جس سے پاکستانیوں کا تکبر ظاہر ہو رہا تھا، بھارت کی بدترین شکست کے پیچھے بھی یہی تکبر تھا۔
وقت سے پہلے فتح کا اظہار متعدد بار شکست میں تبدیل ہو چکا ہے، اس کی کئی مثالیں موجود ہیں لیکن لوگ پھر بھی نہیں سمجھتے، اور جذبات کے ہاتھوں مجبور ہو کر وقت سے پہلے فتح کا جشن منانا شروع کر دیتے ہیں۔میچ میں ہار جیت لگی رہتی ہے مگر بحیثیت مسلمان ہمیں بے جا خوشی کا اظہار کرنے کی بجائے ایسا طرز عمل اختیار کرنے کی ضرورت ہے جس کے بعد پشیمانی کا سامنا نہ کرنا پڑے، پاکستان اور آسٹریلیا کے مابین ہونے والے میچ میں آسٹریلیا نے جب تک مکمل طور پر میچ جیت نہیں لیا اس کی کھلاڑیوں نے اپنے جذبات کو ظاہر نہیں کیا، وہ آخری لمحات تک جیت کی لگن میں رہے اور بالآخر میچ جیت گئے، ہمیں ایسے لوگوں سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔