دنیا رہگذر ہے اور آخرت قرارگاہ

دنیا کا حاصل یہ ہے کہ یہ ایک گزرگاہ ہے لہٰذا انسان کو چاہیے کہ اس کی لذات میں دوڑ نہ لگائے ، اپنے بسر اوقات کی بات کرے اور اگر ذبح ہونے والے جانوروں میں غور کرے اور اس عمل میں لگے ہوئے لوگوں کی آلودگی کو دیکھے اور بھنے ہوئے مرغ اور دوسری کھانے کی چیزیں وغیرہ تو اسے کبھی اچھی نہ لگیں اور اگر سوچنے لگے کہ لقمہ کس طرح لعاب کے ساتھ مخلوط ہو کر منہ میں گھمایا جاتا ہے تو اسے حلق سے نیچے نہ اتار سکے گا۔

آدمی کی دو حالتیں ہیں ۔ یا تو مباح لذتوں کے ذریعے خوش عیش ہونا چاہتا ہے یا ضرورت کی چیزوں کے ذریعے بسر اوقات کرنا چاہتا ہے۔ بس جس چیز کو بھی طلب کرتا ہے اس کے باطن کی کھودکرید میں مت پڑے ۔ عاقل انسان کو مناسب ہے کہ اس کا وقت متعین ہو جس میں اپنی بیوی کو زیب و زینت کا حکم کرے پھر تفتیش سے صرف نظر رکھے تاکہ طبعی نشاط قائم رہے اور خود عورت کو مناسب ہے کہ وہ ان باتوں کا خیال رکھے اور شوہر کے سامنے اچھی حالت میں ہی آئے۔

اس طرح عیش میں دوام آتا ہے مگر جب وہ عام میلے کچیلے حال میں رہتی ہے جس سے منظر اچھا نہیں رہتا تو طبیعت میں کراہت پید ا ہوجا تی ہے۔ بیوی بدلنے کا خیال آنے لگتا ہے ، پھر اس دوسری میں بھی وہی صورت حال ہو گی جو پہلی میں ہوئی۔ اسی طرح خود شوہر کو بھی چاہیے کہ بیوی کے سامنے بظاہر اچھے حال میں رہے جیسے وہ اس کے لیے رہتی ہے تاکہ باہمی الفت اور محبت میں دوام قائم رہے۔

جب یہ صورت حال اس شخص کے حق میں باقی نہ رہے جو کسی شے سے نفرت رکھتا ہے تو اس کی طبیعت اکھڑ جائے گی اور دو باتوں میں سے ایک ہو کر رہے گی۔ یا اعراض کرے گا یا تبدیلی کی صورت ہو گی اور پھر اعراض کی حالت میں اپنی خواہش پر صبر کرنا پڑے گا اور تبدیلی کی صورت میں دوہرا خرچ ہو گی اور دونوں صورتیں تکلیف دہ ہیں۔ جب تک بیان کردہ تجویز کو استعمال میں نہیں لاتا تو خوشگوار زندگی پاسکتا ہے اور نہ ہی اچھی طرح سے بسر اوقات کر سکتا ہے۔

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button