مثبت اور تعمیری تنقید سے نہ گھبرائیں
اندریہ مورو کہتا ہے کہ : ’’ہماری شخصی خواہشات کے مطابق جو بھی لگتا ہے وہ حقیقی معلوم ہوتا ہے اور جو ایسا نہیں ہوتا اس سے ہمیں غصہ آتا ہے۔‘‘ میں کہتا ہوں بالکل ایسے ہی نصیحتیں اور تنقیدیں ہوتی ہیں۔ زیادہ تر یوں ہوتا ہے کہ ہم مدح و تعریف پسند کرتے ہیں اگرچہ جھوٹی ہی ہو اور تنقید و تنقیص کو برا جانتے ہیں ا گرچہ درست ہی کیوں نہ ہو۔یہ بڑا عیب اور بری بات ہے۔
ولیم جیمس کہتا ہے کہ :’’جب کوئی فیصلہ کر لیا جائے تو اسی دن سے اس کانفاذ ہو جانا چاہیے۔ اس صورت میں تم تفکرات سے نجات پا جاؤ گے جو اس مسئلے میں تمہیں لاحق ہوں گے۔ مطلب یہ ہے کہ واقعات کی بنیاد پر جب کسی مناسب فیصلہ پر پہنچ جاؤ تو بس اس کے نفاذ میں لگ جاؤ۔ اس میں کسی تردد یا تشویش کی ضرورت نہیں۔نہ قدم پیچھے ہٹاؤ، نہ شکوک و شبہات میں پڑ کر اپنے آپ کو ضائع کرو اور نہ پیچھے کی طرف دیکھو۔
شاعر کہتا ہے کہ کمزور ارادے والے ساری عمر سرگشتگی میں گزار دیتے ہیں اور کامیابی و ناکامی کے بیچ لٹکے رہتے ہیں۔ایک اور نے کہا ہے کہ اگر رائے رکھتے ہو تو عزیمت والی رائے اختیار کرو کیوں کہ تردد کا ہونا ہی بری بات ہے۔فیصلہ لینے میں شجاعت کا مظاہرہ ہی آپ کو قلق و اضطراب سے بچائے گا۔
قران میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
ترجمہ:’’جب معاملہ پختہ ہو جائے تو اللہ پر یقین کریں۔ یہ ان کے لیے بہتر ہو گا۔‘‘ (۴۷:۲۱)