مشکل میں قوموں کا طرز عمل
قوموں کی تاریخ مشکلات سے بھری پڑی ہے، موجودہ دور کی ترقی یافتہ اقوام اور ممالک کو دیکھیں تو کسی نہ کسی دور میں انہیں بے پناہ مشکلات کا سامنا پڑا ہو گا، تاہم جب قومیں مشکلات سے نکل جاتی ہیں تو ان کی موجودہ حالت کو ہی دیکھا جاتا ہے مشکلات قصہ پارینہ بن جاتی ہیں۔ پاکستان کو بھی اس وقت مشکل صورتحال کا سامنا ہے، ہمیں سب سے پہلے تو یہ اعتراف کرنا چاہئے کہ ہم مشکل دور سے گزر رہے ہیں، لیکن المیہ تو یہ ہے کہ مشکل وقت میں بھی ہم یکجا ہو کر مشترکہ لائحہ عمل وضع کرنے سے قاصر ہیں، تاحال حکومت کو ہی مورد الزام ٹھہرا کر ہر مسئلے کا ذمہ دار قرار دیا جا رہا ہے۔
یہ درست ہے کہ تحریک انصآف کی حکومت عوامی مسائل کو حل کرنے میں ناکام ثابت ہوئی ہے مگر موجودہ دور میں مشکل کی نوعیت اس اعتبار سے بھی مختلف ہے کہ پوری دنیا کو معاشی بحران اور مہنگائی کے عفریت کا سامنا ہے، پاکستان بھی چونکہ دنیا سے الگ نہیں ہے تو لازمی طور پر ہمیں بھی معاشی بحران اور مہنگائی کا سامنا ہے۔
افسوس ناک امر یہ ہے کہ جب حکومت عوام کو مہنگائی کا مقابلہ کرنے کیلئے تعاون کا کہتی ہے تو عوام اس کا استہزا اڑاتی ہے، عوام کو بالکل ایسا لگتا ہے جیسے ایک چرواہا گاؤں والوں سے مذاق کرتے ہوئے شیر شیر کہتا تھا اور گاؤں والے اسے سچ سمجھ کر مدد کو دوڑے چلے آتے تھے لیکن جب سچ مچ میں شیر آیا تو گاؤں والوں نے تب بھی اسے مذاق تصور کیا، اس کہانی میں اگرچہ چرواہے کا قصور تھا کہ اسے جھوٹ نہیں بولنا چاہئے تھا لیکن گاؤں والوں نے بھی موقع کی نزاکت کو نہیں سمجھا اور نقصان ہو گیا ہمارے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا ہے کہ تحریک انصاف حکومت میں آنے کے بعد تواتر کے ساتھ مشکلات کا ذکر کرتی رہی ہے لیکن اب جب حقیقی معنوں میں مشکل سر پر آئی ہے تو قوم اسے مذاق سمجھ رہی ہے۔
قوم حکومت کی بات پر یقین کرنے کیلئے تیار نہیں ہے ایسی صورتحال میں حکومتی وزراء چین کے عظیم رہنماء ماؤزے تنگ کی طرح یہ درس دے رہے ہیں کہ مشکل وقت میں اگر ہم ایک نوالہ کم کھا لیں گے تو ہم مر نہیں جائیں گے، یعنی وزراء قوم کو قربانی دینے پر آمادہ کر رہے ہیں لیکن قوم وزراء کی بات پر یقین کرنے کیلئے تیار نہیں ہے کیونکہ انہیں لگتا ہے کہ وزراء کے قول و فعل میں تضاد ہے، وزراء کی اپنی ٹھاٹھ باٹھ میں کوئی فرق نہیں آیا ہے صرف قوم کو قربانی دینے کیلئے کہا جا رہا ہے۔
سو لازمی ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کی طرح وزراء اور حکومتی رہنما سب سے پہلے خود قربانی دیں اور قوم کیلئے ایک مثال پیش کریں۔ روایات میں آتا ہے کہ جب مصر میں قحط سالی تھی تو حضرت یوسف علیہ السلام نے بھی کھانا کم کر دیا تھا کئی حکومتی رہنماؤں نے کھانے پر اصرار کرتے ہوئے کہا کہ قحط محل سے باہر ہے محل میں تو کوئی قحط نہیں ہے، حضرت یوسف علیہ السلام نے اس کے جواب میں تاریخی جملہ ارشاد فرمایا کہ جب میں پیٹ بھر کر کھاؤں گا تو مجھے بھوکوں کی بھوک کا احساس کیسے ہو گا؟
وزیراعظم عمران خان سمیت اگر حکومتی وزراء سمجھتے ہیں کہ مشکل وقت میں قوم ان کا ساتھ دے تو پھر انہیں اپنی ذات سے آغاز کرنا ہو گا۔ حکومت اپنے حصے کا کام کرے پوری قوم ان کا ساتھ دے گی، اس طرح باہمی تعاون سے ہم ان شاءاللہ بہت جلد مشکل سے باہر نکل آئیں گے۔