زندگی میں شوہر کی قدر میں کوتاہی کیوں؟
بعض افراد خصوصاً خواتین اکثر چھوٹی چھوٹی بات پر بحث مباحثہ چھیڑ کر بات کا بتنگڑ بنا لیتی ہیں۔ کچھ جوان بچیوں کی جب شادی ہوتی ہے، ان کو سمجھ ہی نہیں ہوتی کہ ہم نے کس طرح صبر و تحمل سے زندگی گزارنی ہے۔ خاوند گھر آیا اور گھر آ کر اس کا کوئی کام تھا، اس نے پہلے وہ کرنا شروع کردیا۔
اب اس بات پر بحث: آپ گھر آئے تھے، آپ نے پہلے مجھے ٹائم کیوں نہیں دیا؟ بھئی! ٹائم مانگنے کا طریقہ ہوتا ہے، محبت سے، پیار سے، بحث و مباحثہ سے مسئلہ تھوڑا ہی حل ہوگا۔ بعض اوقات بحث دو دو گھنٹے چلتی رہتی ہے اور دلائل دیتی رہتی ہیں۔ خواتین یہ سمجھتی ہیں کہ وہ جو دلائل دے رہی ہیں تو ٹھیک کر رہی ہیں، حالانکہ یہ حجت بازی عورت کی شادی شدہ زندگی کے لیے زہر کی ماند ہے۔ شیطان یہ چاہتا ہے کہ یہ بحث و مباحثہ کرے اور غصے میں اس کا خاوند اس کو طلاق دے اور اس کے بعد یہ ماری ماری دربدر کے دھکے کھاتی پھرے۔
جب نعمت ہوتی ہے تو قدر نہیں کرتی، جب نعمت چھن جائے تب اس کی قدر آتی ہے۔ ایک بزرگ فرمایا کرتے تھے کہ اے دوست! نعمت کی قدردانی کے لیے نعمتوں کے چھن جانے کا انتظار مت کرو۔ اس لیے دیکھا گیا جب زندگی میں عورت سے پوچھتے ہیں کہ تمہارا کیا حال ہے؟ تو ایسے حال بیان کرتی ہے کہ جیسے اس سے زیادہ دکھوں کی ماری اور کوئی عورت دنیا میں ہے ہی نہیں۔
خاوند وقت پر نہیں آتا، توجہ نہیں دیتا‘ خرچہ نہیں دیتا‘ بے پرواہ، لاپرواہ اور کاموں میں ہے۔ سارے جہان کے نقائص اس کو خاوند میں نظر آ رہے ہوتے ہیں اور اسی خاوند کا جب ایکسڈنٹ ہوتا ہے، یا وہ مر جاتا ہے تو موٹے موٹے آنسو گرا رہی ہوتی ہے۔ اب پوچھو کہ بھئی کیو ں رو رہی ہو؟ تمہاری تو جان چھوٹی ہے۔ کہتی ہے نہیں! میرے بچوں کا باپ تھا، مجھے سایہ دیا ہوا تھا۔ میری عزت کی زندگی تھی، پریشانی تو کوئی نہیں تھی۔ چلو آتا تو دیر سے تھا مگر گھر تو آ جاتا تھا۔ اب تو میرا گھر خالی ہو گیا ہے۔ اب اس کی قدر آئی۔ اب قدر کرنے کا کیا فائدہ؟
اس لیے نعمت کی موجودگی میں نعمت کی قدر کرنا سیکھیں۔ صبر کا ایک درجہ یہ ہے کہ انسان مصیبت سے خوش ہو جائے۔ انسان مصیبت پر راضی ہو جائے اور کہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو بھیجا، ٹھیک بھیجا ہے۔ یعنی اس کا دل بھی اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہو جائے۔ یہ صبر کا اونچا درجہ ہے۔